سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 53 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

365

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | پھرگوآدر میں

عبدالباسط شیخی کا تعلق (پیدائش 23 ستمبر1981ء، چاہ بہار) مغربی بلوچستان یعنی ایران کے چاہ بہار شہر سے ہے۔ ایک صحت مند جوان، ہو بہو مکران کا بلوچ۔ قد مناسب، جسم متوازن، بلوچ رنگت۔ مزاج میں متین و سنجیدہ، باحجاب و منکسر۔ کوئی گھمنڈ کبر نہیں، کوئی شو، شا نہیں۔ سادہ، صاف اورستھرے من کا مالک نوجوان۔ اصول ضابطے کا آدمی۔ ایک عظیم آرٹسٹ کے خُوبو کا انسان۔ بہت ہی شیریں فطرت۔

شیخی اُس کا ذیلی قبیلہ ہے جب کہ بڑے قبیلے کا نام ملازئی ہے۔ ملازئی شاید ایران کے بلوچوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ اسی طرح خان زئی بھی وہاں کا اچھا خاصا بڑا قبیلہ ہے۔ ”بدپا“ بھی بڑے قبائل میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ سردار زئی، حمل زئی نام کے قبائل قابل ذکر ہیں۔

باسط خود چاہ بہار کا نہیں، پیشین کا ہے۔ چاہ بہار کے باشندوں کو ”امانی“ کہتے ہیں۔ جو ماہی گیر(مید) ہیں۔

وہاں گوادر میں ملا تو جیسے ایک ارمان پورا ہوگیا ہو۔ میں اس بڑے آرٹسٹ کے کام سے خوب واقف تھا۔ آرٹ تو انسانی روح کو جمالیات عطا کرتا ہے۔ ایک نرمگی عطا کرتا ہے قلب ورویوں کو۔ یہ تہذیبی سطح کو بلند کرتا ہے۔ باسط نے اپنے اندر موجود ٹیلنٹ پر ہی بھروسہ نہ کیا بلکہ خوب محنت کرکے اُسے اجلا، ستھرا اور مزید تخلیقی بنادیا۔

آج ملا تو جیسے برسوں کا شناسا دوبارہ دیدار کرارہا ہو۔ ہم نے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ اُس نے بتایا کہ چاہ بہار میں کوئی ادارہ وغیرہ تو نہ تھا جہاں سے وہ باقاعدہ آرٹ سیکھتا، لیکن چوں کہ اسے بچپن میں ہی آرٹ اچھا لگتا تھا تو اس کے والد عبدالغنی نے اس کی خوب حوصلہ افزائی کی (وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے)۔ والد خود بھی آرٹسٹ تھا مگر وہ پروفیشنل آرٹسٹ نہ تھا، بس شوقیہ ڈرائنگ اور پینٹنگ کرتا تھا۔

ہم نے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ اُس خاموش طبع نے کم، میں نے زیادہ۔ اور جب میں نے اُس کے اپنے بارے میں بہت پوچھ گچھ کی تو اس نے بالآخر گویا سیشن ختم کرانے کی خواہش میں پوچھا، ”آپ تاج بریسیگ کو جانتے ہیں؟“۔ میں نے کہا، ”ہاں، میرا محترم دوست ہے وہ“۔ تو بولا ”وہ میرا چاچا ہے“۔ اور میں ڈاکٹر تاج بریسیگ اور اُس کی باوقار بیگم کی باتیں کرنے لگا جو اپنی گراں قدر بیگم کے ساتھ یہاں بلوچستان یونیورسٹی میں کچھ عرصہ پروفیسری کرنے آیا تھا۔ مگر سویڈن کا رہائشی تاج، کوئٹہ کے رویوں کی کرختگی کی دیر تک تاب نہ لاسکا اور واپس یورپ چلا گیا۔ بلاشبہ بلوچستان دنیا بھر کے بلوچوں کا سرچشمہ اِنسپائریشن ہے۔ مگر، شاید ابھی تک یورپی بلوچوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔

دو بچوں کا باپ باسط حدوحساب سے زیادہ بڑا آرٹسٹ ہے۔ اس کی اب تک سات نمائشیں گروپ میں، اور پانچ سو لو نمائشیں ہوچکی ہیں۔

باسط کے شہر چاہ بہار کے دو اور بڑے آرٹسٹ ہیں: اِن میں سے ایک تو محترمہ سیما سردار زئی ہے جو بلوچ عوام کی خواہشوں کی ترجمان اور بین الاقوامی سطح کی آرٹسٹ ہے۔ سماجی معاملات بالخصوص عورتوں کے بارے میں پینٹ کرتی ہے۔حسن یادگار زادہ تو رنگوں کا بادشاہ ہے۔ جدید تقاضوں سے آشنا، اپنے وطن کی حقیقتوں سے باخبر۔ یہ تینوں ہم بلوچوں کا ’نرم چہرہ‘ ہیں۔ ہمارے سفیر ہیں۔

باسط جان کا مشن ہے کہ وہ بلوچ شاعروں، ادیبوں، دانش وروں اور آرٹسٹو ں کو دنیا کے سامنے متعارف کرائے۔

باسط نے ماما عبداللہ جان جمالدینی، عطا شاد، مبارک قاضی، کمالان، جواں سال اور بے شماربلوچ آرٹسٹوں اور علم و ادب سے وابستہ لوگوں کی بہت ہی خوب صورت پینٹنگز بنائی ہیں۔ اس کی بے شمار پینٹنگز کو میں ”سنگت“ کا ٹائٹل بناتا رہا ہوں۔

انٹرنیٹ اور ای میل کی آفاقی مہربانیوں کی بدولت اُس سے میری سلام دعا تھی۔ مگر یہاں تو آج اس کی پینٹنگز کی نمائش رکھی گئی تھی۔ لہٰذا وہ موجود تھا۔ میں اس سے بغل گیر ہوکر کتنا خوش ہوا تھا۔ مگر یہ خوشی اُس وقت اعتماد و فخر و اطمینان اور گہری دوستی میں ڈھل گئی، جب اُس کا افتتاح کرنے کو مجھے منتخب کیا گیا۔ مجھے پتہ ہے اُسے بھی بہت خوشی ہوئی تھی۔
یہ نمائش باسط جان کے ساتھ ساتھ گوادر کی دو عورت آرٹسٹوں کے فن کی بھی تھی۔ ہم اُن تینوں کے آرٹ کی خوب صورتی سے لطف اندوز ہوئے۔ پورا شہر اور گردونواح امڈ آیا تھا یہ نمائش دیکھنے۔………… میں نے یہ ساری نمائش باسط کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دیکھی۔

اُس نمائش کے فوراً بعد سیمینار شروع ہوا۔ یہ سیمینار بلوچی زبان کا ایک ابھرتا نوجوان، پروفیسر، اے آر داد (عبدالرزاق داد) کنڈکٹ کررہا تھا۔ علم کا پیاسا، کتاب کا دل دادہ اور تخیل و تفکر کا دھنی اے آرداد۔ وہی اِس علمی سیمینار کا منتظم تھا۔ بس، اِسی سے اس سیمینار کی علمیت اور اعلیٰ معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اے بلوچستان، تمہیں بلوچستان کا واسطہ ہمیں بڑی تعداد میں اے آرداد جیسے لوگ بخشتے رہنا!

مقررین نے بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مدلل اور قائل کنندہ تقریریں کیں۔ مطالعہ کی عادت اپنانے اور بحث مباحثہ کرنے کی اہمیت واضح کی اور بلوچی کلاسیک اور فوک سے دلچسپی پیدا کرنے تلقین کی۔ بلوچستان میں موجود فیوڈل سرداری نظام اور مرکزی حکومتی اداروں کی ملی بھگت کو موجودوقائم عوام دشمن، استحصالی اور گھٹن کے ماحول کا ذمہ دار قرار دیا۔ ذکری اور شیعہ بلوچوں کے قتل کو ریاستی پالیسی کے تسلسل کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ بلوچ مسئلہ سیاسی ہے اور سیاسی طریقے سے ہی حل ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے انتہا پسند جتھوں کے قیام اور فرقہ واریت کے نام سے انسانوں کا قتل کوئی کام نہ دے سکیں گے۔ سرکار اور سردار بلوچ مسئلے کا سبب ہیں۔

اس سیمینار میں کے بی فراق اور عبدالباسط شیخی ادب اور آرٹ پر پُرمغز بولے۔ میں نے بھی اپنی ”گنوخ سُدھا“ باتیں کیں۔
اسی دوران سکولی بچوں کے درمیان مضمون نویسی کا مقابلہ بھی کرایا گیا، اور مصوری کا بھی۔ اس کے علاوہ پسنی کے آرٹسٹوں نے ساحل پر ریت کے فن پاروں (سینڈ آرٹ) کی خوب صورت نمائش منعقد کی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔