بلوچستان اور دو فٹ کی مسجدیں – سازین بلوچ

287

بلوچستان اور دو فٹ کی مسجدیں

تحریر۔ سازین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں ہر گھر اور دل کسی نہ کسی آگ میں جل رہا ہے، بلوچستان کا ہر گھر یہ سوچتا ہے کہ کیا ہم اگلے ایک گھنٹے میں محفوظ رہینگے، کیا ہمارے بچے محفوظ ہیں؟ اور بلوچستان میں ہر دوسرا گھر یا تو اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشوں پر رو رہا ہے یا پھر لاپتہ پیاروں کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔

ہم ہر بار ہر وقت نکالتے ہیں، انصاف مانگنے یہاں تو ہماری عورتوں کی چادریں محفوظ نہیں، یہ وہ بلوچستان ہے جہاں میار جلی ایک بہت بڑی ٹرم ہے، میار جلی کے نام پے اپنے مہمان کو محفوظ کرنے کے لئے بلوچ میزبان اپنی جان کا نظرانہ تک پیش کرتے تھے اور آج ہماری اپنی سر زمین میں ہم اجنبی ہیں، ہم جب نکلتے ہیں انصاف کے لئے تو یار محمد جیسے لوگ ہمیں بے غیرت کہتے ہیں، یہ پھر تعلیم دشمن ہمہیں گرفتار کرتے ہیں یہ وہ سر زمین ہے جہاں تعلیمی اداروں میں بھی عزتیں محفوظ نہیں۔

بلوچستان میں آکے باقی قومیں بھی خود کو محفوظ سمجھتے تھے لیکن افسوس کے ساتھ اب ہمارے اپنے لوگ محفوظ نہیں، کبھی حسیبہ کی وہ سسکیاں، وہ رونا، جس میں وہ چیخ چیخ کے بول رہی ہے ہمارے گھر کے مرد ختم ہوچکے ہیں تو کبھی مہلب اور سمی ہمیں کراچی سے اسلام آباد اور کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے کیمپوں اور پریس کلب میں اپنے باپ کے لئے گیارہ سال سے بیٹھے نظرآتے ہیں تو کبھی ہمہیں فرزانہ مجید اپنے بھائی ذاکر مجید کے لئے لونگ مارچ کرتی نظر آتی ہے توکبھی ہمیں راشد حسین کی ماں اور وہ ننھی ماہ زیب کبھی کراچی پریس کلب تو کبھی کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ان بےبسی کےآنسوں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں تو کبھی ہمیں سیما اپنے بھائی شبیر کے لئے ریلیاں نکالتے ہوئے دکھائی دیتی ہے تو کبھی کوئی اور ہر بار نام اور تصویر بدل جاتے ہیں موضوع وہی ہیں لاپتہ افراد۔ ہمارے بھائیوں کو تو لاپتہ کر کے ہم سے چھین لیا ہے اور باقی جتنے مرد بچے ہوئے ہیں انکو نشے کا عادی بنا کے برباد کیا گیا ہے۔

لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اسٹیٹ تو ہمارا دشمن ہے لیکن ہم بھی ان چیزوں میں اتنا ہی قصور وار ہیں جتنا ریاست؟ کیا کبھی ہم نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ؟ کیا ہم نے کبھی اپنے دو فٹ کی مسجدوں سے نکلنے کی کوشش کی؟ کیا ہم نے کبھی لاپتہ افراد کا مسئلہ اور تعلیمی مسئلوں پے ایک ساتھ ہونے کی کوشش کی؟ کیا ہم کبھی دو دن ایک ساتھ بیٹھ کے بات کرنے کی کوشش کی؟ نہیں ہم سب اپنے اپنے دو فٹ کی مسجدیں بنا کے یہ سمجھتے ہیں کی میں بلوچیت کا فرض نبھا رہا ہوں میں اپنے بلوچستان کا فرض نبھا رہا ہوں لیکن نہیں آپ صرف اپنے پارٹی کا سوچتے ہیں کہ میری پارٹی آگے ہو بلوچ اور بلوچستان کو چھوڑ دو۔

ہم دعویٰ کرتے ہیں بلوچ ہونے کی لیکن بنتے ہیں دو مارچ والے بلوچ تاریخ گواہ ہیں کہ دو مارچ والے بلوچ اس رقص کے لئے ان پروگراموں کے لئے ایک دن والے بلوچ بنتےہیں انکو بلوچستان کے مسئلوں سے کوئی دلچسپی نہیں وہ کبھی بھی کسی بھی مسئلے پے نہیں بولتے ہیں تو میرے بھائی بلوچیت کا دعویٰ ایک دن کا کیوں یہ ایک دن چھ گز کا دستار اور آٹھ گز کا شلوار پہن کر تمہارے فرائض پورے نہیں ہوں گے، بلوچیت کا دعویٰ بلوچ کے مسائل پے بول کے کرو بلوچستان کے مسائل پے بول کے کرو۔

خدارا اب اپنے دو فٹ کی مسجدوں سے نکل جائیں، اب یکجہتی کا مظاہرہ کریں بلوچستان میں امن ایک خواب بن کے رہ گیا ہے بلوچستان میں تعلیم کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ہم کبھی تو فیس کے لئے سڑکوں پے نظر آتے ہیں تو کبھی تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے خلاف تو کبھی آنلائن کلاسز کے خلاف یہ سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمیں تعلیم سے دور رکھا جا رہا ہے تاکہ ہمیں حق اور انصاف کا پتہ نہ ہو ہم پڑھ لکھ کے سی پیک اور سیندک نہ مانگیں۔

ہم اگرسب بلوچ ایک دن بھی پورے پاکستان کو بند کریں توکر سکتے ہیں، ہم ایک ساتھ مل کے سب کچھ کر سکتے ہیں ہمارے مسئلوں کو کبھی دلچسپی سے نہیں سنا گیا ہمیں کبھی انسان سمجھا ہی نہیں گیا سد افسوس کے ساتھ کلثوم اور ملک ناز کے قاتل باہر ہیں اور طالب علم زندانوں میں ہیں یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کے یہ زندانیں انصاف مانگنے والوں کے لئے بنائی گئی, تعلیم دوستوں کےلئے بنائی گئی, اسی لئے تو تعلیمی بجٹ آٹے میں نمک برابر نہیں اور دفاعی بجٹ پورا آٹا ہے۔

ہمیں بندوق نہیں کتاب چاہیئے، ہم آپ کے خزانے نہیں مانگ رہے ہم تو صرف تعلیم کا حق مانگ رہے اور آپ ہمیں اس پہلی دنیا کے خواب دکھا رہے ہیں، ہمیں پہلی دنیا میں نہیں جانا کیوں کے ہم تیسری دنیا کے بھی تیسری دنیا میں رہتے ہیں جہاں کے لوگ ریت والے پانی پیتے ہیں جہاں سے سوئی گیس نکلتی ہیں لیکن ہم اسکے بو سے بھی محروم ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔