فلاحی ریاست کا تصور اور اس کی اہمیت – مشکور انور بلوچ

1271

فلاحی ریاست کا تصور اور اس کی اہمیت

تحریر: مشکور انور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی بھی ریاست کی دو بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ شہریوں کو وہ تمام شہری حقوق فراہم کرے جو بہتر زندگی گذارنے کےلیے ضروری ہیں اور دوسرا یہ کہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عدل و انصاف فراہم کرے۔ اگر ریاست ان ذمہ داریوں اور فرائض کو پورا کرنے کا اہل نہیں تو وہ کامیاب ریاست کے زمرے میں نہیں آتا۔

اسی طرح ایک مثالی فلاحی ریاست میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ، جدید شہری نظام ، پینے کے لیے صاف پانی کا انتظام، روٹی کپڑا، مکان، تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ شہریوں کے بنیادی مسائل جن میں بیروزگاری الاؤنس، معذوری الاؤنس، پینشن اور ضیف العمر شہریوں کے لئے مالی مدد، شہریوں کو سیاسی، سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی، مذہب، عقیدہ، زبان، قومیت رنگ و نسل، طبقاتی فرق کا خاتمہ اور خوشحال زندگی کے یکساں مواقع بھی فلاحی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں ۔

فلاحی ریاست کی اہمیت میں اضافہ اس وقت ھوا جب پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے اکثر ریاستوں پر بےچینی اور مایوسی کے سیاہ بادل چھانے لگے نتیجے میں یورپ کے زیادہ تر ملکوں نے فلاحی ریاست کے تصور کو اپنا کر نہ صرف شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کئے بلکہ ریاست اور شہریوں کے مابین فرائض اور ذمہ داریوں کا واضح تعین کیا جس سے عوام اور ریاست کے مابین اعتماد اور محبت کا رشتہ مزید مضبوط ھوا۔

پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دے کر فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا لیکن بدقسمتی سے یہ نعرہ محض انتخابی نعرہ ثابت ہوا جبکہ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ھوئی کہ غیر آئینی طریقہ سے ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کو گرا کر جمہوری عمل کے تسلسل کو مارشلاء کے ذریعے روک کر فلاحی ریاست کے قیام کی نفی کی گئی۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو روز اول سے ہی پاکستان پر نظریہ ضرورت اور نوآبادیاتی قانون کے اثر رہا ھے۔ ابتدائی نو سال بغیر آئین کے گذر جبکہ 25 سالوں تک متفقہ آئین بنانے میں ناکام رہے، جس کے نتیجے میں ریاست اندرونی طور پر کمزور ھو کر مشرقی پاکستان جیسے بڑے سانحے کا شکار ہوئی۔

فلاحی ریاست میں ریاست کے چاروں ستونوں مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا کا کردار اھم ھوتا ھے۔ یہ تمام ادارے آئینی حدود میں رہ کر ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی ، آذادی رائے کا اظہار، جمہوری نظام کا پائیدار تسلسل اور ایک مضبوط آہین فلاحی ریاست قائم کرنے کے لئے انتہائی اہم اور ضروری ہیں۔

جس معاشرے میں میڈیا کی آذادی، جمہوری نظام حکومت کا تسلسل اور شہری و قانونی حقوق کے تحفظ کے لئے مضبوط آئین نہ ھو تو وہ ریاست فلاحی ریاست کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔ اس لئے کسی بھی ریاست میں بلواسطہ یا بلاواسطہ ذرائع سے ایوانوں میں تشریف فرما غیر جمہوری طور و پر منتخب قوتیں عوام دوست اور فلاحی ریاست کا دعوی تو کرسکتے ھیں لیکن حقیقت میں وہ اس سے بہت دور ہوتے ھیں۔

اگر دیکھا جائے تو تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کے کئی وجوہات ہیں، سب سے اھم وجہ یہی ہے کہ جن قوموں نے لوگوں کو بلا امتیاز ترقی کے موقع فراہم کئے اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کی وہ قومیں تاریخ میں بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ھوئے ۔ اس میں دو رائے بلکل نہیں ھے کہ ریاست کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار شہریوں کی ترقی، خوشحالی اور فلاح و بہبود پر منحصر ھے۔ جبکہ دوسری طرف وہ معاشرے جو عوام کے مفاد کے برعکس مخصوص گروہ یا طبقے کے مفادات کو تحفظ دیتے ھیں اور اس معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عوام کا کردار نہیں ھو تو اس کے نتیجے میں ریاستی ادارے غیر مستحکم اور بحرانی کیفیت کا شکار ھو کر ناکام ریاست بنانے کا باعث بنتے ہیں ۔

لہذا موجودہ عالمی و علاقائی حالات ھمیں یہ درس دیتے ہیں کہ ریاست کو اندرونی و بیرونی طور پر مضبوط اور طاقتور بناکر مثالی فلاحی ریاست کے تصور کو اپناہیں۔ شہریوں کو درج بالا تمام سہولیات فراہم کریں، جو ایک مثالی فلاحی ریاست بنانے میں مددگار ھوتے ھیں وگرنہ بحرانی کیفیت سے دوچار غیر مستحکم ریاستیں وقت گزرنے کے ساتھ تباہ و برباد ھوکر اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔