ڈاکٹر منان بلوچ کا آواران – ذالفقار علی زلفی

1084

ڈاکٹر منان بلوچ کا آواران

تحریر: ذالفقار علی زلفی

دی بلوچستان پوسٹ

آج 30 جنوری ہے ـ شاید کسی کے ذہن میں سوال آئے؛ تو؟ ـ دھیرج رکھیے ! تو کا جواب بھی مل جائے گا ـ پہلے کچھ ذکر آواران کا ـــــ

آواران بلوچستان کا دور افتادہ و پسماندہ ضلع ہے ـ ویسے یہ جملہ بھی عجیب ہے ـ بلوچستان کا شاید ہی کوئی ایسا ضلع ہو جس پر دور افتادہ و پسماندہ کا لیبل چسپاں نہ کیا جاسکے ـ سو ایسا کہنا زیادہ مناسب ہوگا آواران پسماندہ و دورافتادہ بلوچستان کا ایک وسطی ضلع ہے ـ آواران ہمیشہ سے ایک مزاحمتی خطہ رہا ہے ـ خان قلات کے دور میں ششک (کسان کے پیداوار پر غیر پیداواری طبقے کا چھٹا حصہ) کے خلاف آواران کے کسانوں کی جدوجہد ہماری تاریخ کا فراموش شدہ باب ہے ـ امید قائم رہے، بلوچستان کی طبقاتی تاریخ کبھی تو لکھی جائے گی ـ

جنرل پرویز مشرف کی مسلط کردہ ترقی کا ایک تحفہ گوادر کراچی کوسٹل ہائی وے ہے ـ بظاہر یہ سڑک ایک اہم پیش رفت ہے ـ جہاں کراچی سے گوادر جانے کے لیے تین سے پانچ دن لگتے تھے اب وہاں آٹھ گھنٹے لگتے ہیں ـ ترقی تو ہے بھئی! اس ترقی کی قیمت لیکن جس نے چکائی اس کی بدترین پسماندگی اور معاشی قتلِ عام سی پیک کے خوش کن نعروں کے پیچھے چھپ گئی ـ مقتول آواران ـ

جنرل مشرف کی مسلط کردہ ترقی سے پہلے آواران، کراچی سے تربت/گوادر بلکہ صاف لفظوں میں کہوں تو ایران آنے جانے کا اہم پڑاؤ ہوا کرتا تھا ـ آواران کی معیشت کے ایک بڑے حصے کو اسی آمدورفت کا سہارا تھا ـ ایک دن اسلام آباد کے منصوبہ سازوں کو علم ہوا بلوچستان پسماندہ ہے اور انہوں نے پسماندگی دور کرنے کے لیے سمندر کنارے کراچی گوادر سڑک بنا دی ـ تجارتی راستہ بدلنے کا نقصان آواران کو ہوا ـ اسلام آباد اگر چاہتا تو آواران کی معیشت کے لیے متبادل راستہ ضرور نکالتا لیکن انہیں تو یہ جاننے میں دہائیوں لگ گئے کہ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان میں گوادر نامی شہر بھی ہے ـ

پسماندگی کا شکار آواران مزید پسماندہ ہوا ـ بھوک کی شدت بڑھ گئی ـ بھوک جرائم بھی لاتا ہے اور انقلاب بھی؛ اس کا انحصار موضوع پر ہے ـ آواران موضوعی لحاظ سے ہمیشہ انقلابی رہا ہے ـ آواران نے ایک دفعہ پھر انقلاب کو چُنا ـ

اس زمانے میں ضلع آواران کی تحصیل مشکے سے تین نوجوان بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرکے عملی زندگی میں اترے ـ تینوں زمانہِ طالب علمی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رکن رہ چکے تھے ـ ان میں سے ایک ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، سیاسی زندگی کے مختلف چیلنجز سے نمٹتے نمٹتے آج مسلح محاذ پر بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں ـ دوسرے تھے ڈاکٹر دین محمد بلوچ ـ ڈاکٹر دین محمد بلوچ نے آزادی پسند غیر مسلح لیکن غیر پارلیمانی پارٹی “بلوچ نیشنل موومنٹ” کو اپنا سیاسی مستقر بنایا ـ وہ 2010 کو اپنے مطب سے جبراً لاپتہ کردیے گئے ـ ہنوز جبری گمشدگی برقرار ہے ـ تیسرے تھے ڈاکٹر منان بلوچ ـ

ڈاکٹر منان بلوچ اپنے دونوں دوستوں کے برخلاف سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ـ انہوں نے طب کے پیشے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ـ جھاؤ، آواران کی غریب ترین تحصیل ـ ڈاکٹر منان جھاؤ کے مسیحا بن گئے ـ جھاؤ میں وہ بیک وقت تین کام کرتے تھے ؛ مسیحائی، مطالعہ اور نوجوانوں سے علمی مکالمہ ـ جلد ہی انہوں نے خطے میں ایک حلقہِ اثر بنا لیا ـ

ڈاکٹر منان بلوچ شاید جھاؤ کے لوگوں کا علاج کرتے کرتے بوڑھے ہوجاتے اگر 2006 کو تراتانی کے پہاڑوں میں پاکستانی فوج وحشت کا ننگا مظاہرہ نہ کرتی ـ بزرگ بلوچ رہنما کے قتل و ان کے تابوت کی توہین آمیز تدفین نے ڈاکٹر منان کو ہلا دیا ـ کتابوں کے رسیا ڈاکٹر نے سیاست کے خارزار میں اترنے کا فیصلہ کرلیا ـ انہوں نے مسلح جدوجہد کی بجائے پرامن سیاست کا راستہ اختیار کیا ـ وہ بلوچ نیشنل موومنٹ کا حصہ بن گئے ـ آواران نے بالعموم اور جھاؤ نے بالخصوص انہیں اپنا رہنما چن لیا ـ جھاؤ کو بعد میں اس کی سخت ترین قیمت بھی چکانی پڑی ـ

اپریل 2009 کو بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین غلام محمد بلوچ تربت سے اغوا کرکے قتل کردیے گئے ـ ان کے حراستی قتل کے بعد ڈاکٹر منان بلوچ اعلی قیادت کی صورت سامنے آئے ـ انہوں نے مطالعہ، مکالمہ اور تخلیق کو پارٹی کا حصہ بنا دیا ـ مارکسی لیننی رجحان رکھنے کے باعث وہ کٹر قوم پرستوں کی تنقید کا نشانہ بھی بنتے رہے ـ مزے کی بات یہ ہے کہ بلوچستان کے بعض سکّہ بند مارکسی انہیں متشدد قوم پرست گردانتے رہے ـ

2012 کو آواران کی تحصیل جھاؤ میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے کونسل سیشن کا انعقاد ہوا ـ کونسل سیشن نے انہیں پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر منتخب کرلیا ـ

30 جنوری 2016 کو پاکستانی فوج نے مستونگ کے نواحی دیہات کے ایک گھر میں چھاپہ مارا ـ ڈاکٹر منان ایک تنظیمی دورے کے سلسلے میں وہاں مقیم تھے ـ فوجی اہلکاروں نے آواران کے ڈاکٹر منان بلوچ کو ان کے پانچ ساتھیوں سمیت قتل کردیا ـ فوج کے مطابق وہ مقابلے میں مارے گئے ـ یہ ویسا ہی معجزاتی مقابلہ تھا جس میں فوجی اہلکاروں کو خراش تک نہیں آتی ـ اس وقت کے وزیرِ داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ڈاکٹر منان بلوچ کی سیاسی شناخت مسخ کرکے کہا وہ مسلح علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے کمانڈر تھے ـ

آواران بلوچستان کا دماغ ہے ـ دشمن مطمئن رہے بلوچ کا دماغ ابھی تک سلامت ہے ـ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔