شہید ڈاکٹر منان بلوچ نے موبلائزیشن کے عمل کو نئی بلندی عطا کی – بی این ایم

490

شہید ڈاکٹر منان جان اور ساتھیوں کے چوتھی برسی کے موقع پر مختلف اجلاس اور ریفرنس پروگراموں ک منعقد کیئے گئے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے شہدائے مستونگ ڈاکٹر منان بلوچ، بابو نوروز، اشرف بلوچ، حنیف بلوچ اور ساجد بلوچ کی چوتھی برسی کے موقع پر بلوچستان اور بیرون ملک کئی پروگراموں اور اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ مرکزی اجلاس خارجہ سیکریٹری حمل حیدر کی صدارت میں ہوا، جس کے مہمان خاص مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دلمراد بلوچ تھے۔ اجلاس سے حمل حیدر، دلمراد بلوچ، مرکزی فنانس سیکریٹری ناصر بلوچ، بی این ایم ڈائسپورا کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ، ڈائسپورا کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر حسن دوست بلوچ، سابقہ انفارمیشن سیکریٹری قاضی ریحان داد بلوچ، بی این ایم برطانیہ کے صدر حکیم بلوچ، برطانیہ زون کے سرگرم رکن نسیم عباس بلوچ نے خطاب کیا اور شہدائے مستونگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس عہد کا اظہار کیا کہ وہ شہدا کے مشن آزاد بلوچستان کی جد و جہد منزل تک پہنچانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ اسی طرح ایک اجلاس جرمنی زون کی طرف سے منعقد کی گئی۔

حمل حیدر نے کہا کہ میں ایک عرصے سے تنظیمی حوالے سے ڈاکٹر منان بلوچ سے رابطے میں رہا ہوں۔ جس وقت ہم بی ایس او میں تھے، بھی ڈاکٹر منان سے مختلف اوقات میں حال احوال ہوتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں ایک میڈیکل ڈاکٹر کا ایک بڑا رتبہ ہوتا ہے اور وہ اکثر اپنا کیریئر بہتر منانے میں مصروف رہتے ہیں لیکن ڈاکٹر منان بلوچ اپنا ذاتی کیریئر بنانے اور سرکاری تنخواہ اور مراعات سے دور رہ کر بلوچ قومی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے تھے۔ یہ ان کی کمٹمنٹ کی ایک واضح اور بڑا ثبوت ہے۔

حمل حیدر بلوچ نے کہا کہ ان کی شہادت کی خبر ہم سب کیلئے ایک تکلیف دہ خبر تھی لیکن بیک وقت ان کی قربانیاں اتنی بڑی ہیں کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ بی این ایم وہ جماعت ہے جس نے اپنے چیئرمین، سیکریٹری جنرل سمیت دوسرے مرکزی کابینہ کے اراکین اور کئی کارکنوں کی قربانی دی ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور ہمیں اس پر فخر بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی ریاستی جبر کے باوجود بی این ایم بحیثیت ایک سیاسی جماعت بلوچستان اور بلوچ عوام کے دلوں میں موجود ہے اور سیاسی طور پر سب سے زیادہ سرگرم اور متحرک ہے۔ یہ ڈاکٹر منان اور دوسرے رہنماؤں کی قربانی اور شب و روز محنت کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا بہت مشکل تھا۔ بی این ایم کا ہر ایک کارکن، خصوصا بی این ایم کے رہنما ریاست کے نشانے پر تھے۔ ڈاکٹر منان بلوچ کی ہمت کو سلام ہے کہ انہوں نے ایسی اوقات میں بھی اپنی سرگرمیاں تیز کی ہوئی تھیں۔ انہوں نے جس انداز میں کام کیا جیسے محسوس ہو کہ کوئی سختی اور جبر وجود ہی نہیں رکھتی۔ ڈاکٹر منان بلوچ کہتے تھے کہ اگر ہم احتیاط کے نام پر سرگرمیاں نہ کریں تو تنظیم کاری ہو ہی نہیں سکتی مگر ہم احتیاط ضرور کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم کسی سیاسی میٹنگ میں اکھٹے ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے شہید رہنما اور دوستوں کی سخت کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی اس طرح کی بڑی قربانیاں ہمیں اپنی تحریک کو آگے لے جانے کیلئے موٹیویٹ بھی کرتی ہیں۔ یہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

پروگرام کے مہمامن خاص مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ انتہائی بہادر لیڈر تھے۔ غلام قوم کے بارے موت کا فلسفہ نہایت واضح تھا اور وہ اپنی موقت میں قومی بقا کے قائل تھے۔ ڈاکٹر صاحب ایک مجلس میں موت کے بارے کہتے ہیں ”ویسے موت ایک بہت ہی خوفناک شئے ہے، ہم نے یہی سنا ہے کہ لوگ اس سے بھاگنے کی بہت تَگ و دُو کرتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر و علاج ڈھونڈتے ہیں۔ یہاں وہاں سے اپنی زندگی کوبچانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔۔۔ لیکن پھلیں حمید بلوچ کو مچھ جیل میں پھانسی دی جاتی ہے تومچھ کا پھانسی دینے والا خود اقرارکرتا ہے کہ جب میں حمید سے کہتا ہوں کہ ”کل آپ کو پھانسی دی جائے گی تووہ خوشی سے نہال ہوجاتا ہے“ اور جب اپنا وصیت نامہ لکھتا ہے تواُس میں کہتا ہے کہ ”میں اس لئے خوش نہیں ہوں کہ مررہا ہوں، مجھے زندگی سے نفرت ہے، بلکہ مجھے زندگی سے پیار ہے۔ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں لیکن میری وہ زندگی جو غلامی میں بسر ہورہا ہے، جومحکومی میں بسر ہورہا ہے، مجھے زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ اس لئے میں اُس موت کو خوشی سے گلے لگاتا ہوں۔ میں اُس موت کو خوشی سے قبول کرتا ہوں کہ میری موت سے میری چھوٹی بیٹی بانڑی جس کا عمرتین سال ہے، اُس کی زندگی میں نہیں، اُس کے بچوں کی زندگی میں نہیں، اُس کی نواسوں کی زندگی میں بلوچ ایک آزاد اور خود مختیار ملک کا مالک بن جائے اور وہ اپنی اقتداراعلیٰ کا خودمالک بنیں تواس لئے مجھے پشیمانی نہیں“۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ پروم میں ایک مجلس میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر منان جان نے قومی موت پانے والوں کے بارے میں کہا ”ویسے عجیب لگتا ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کا نام و نشان غائب ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ کیسی زندگی ہے کہ بعد از موت ملتا ہے۔ یہ وہی زندگی ہے جو ہمارے ساتھیوں کو ملا ہے کہ جن کا میں نے ذکر کیا۔ یہ وہی زندگی ہے جو نواب اکبر خان بگٹی کو پیران سالی میں ملتا ہے۔۔۔ وہی زندگی ہے جو بہن زامر (براہمدغ کی بہن ِمتحرمہ) کو ملتی ہے۔ وہی زندگی ہے جو شہید عبدالرحمن کوملتا ہے۔ وہی زندگی ہے جو شہید غلام محمد کو ملتا ہے۔ وہی زندگی ہے جو لالا منیرکو ملتا ہے۔ وہی زندگی ہے کہ جس نے آج قوم کو زندہ رکھا ہے۔ ہمیشہ جوقومیں مرنا جانتے ہوں تووہ دنیا جہاں میں مٹتے نہیں ہیں، لیکن جب قوم اپنی سرتسلیم ِ خم کرتے ہیں، موت سے ڈرتے ہیں، موت کی خوفناکیوں سے بھاگتے ہیں، تو وہ قوم معدوم ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے نقشے سے اُن کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں اُس قوم سے تعلق رکھتا ہوں کہ ہمیشہ سے کیسی بھی طاقتور قبضہ گیر، خواہ کسی بھی شکل میں آیا ہو، یہاں کامیاب نہیں رہا ہے۔ وہ میری سرزمین پر قبضہ جما نہیں سکا ہے۔ نواب اکبر خان بگٹی شہید کا ایک خوبصورت بات یاد آتا ہے وہ کہتے ہیں ”آج بلو چ فخرکریں کہ وہ اتنی کشادہ زمین کے مالک اس لئے ہیں کہ اُنہوں نے زندہ رہنے کے لئے مرنا سیکھا ہے۔“

انفارمیشن سیکریٹری نے کہا کہ مجھے ان کی بہادری اور موبلائزیشن کی قوت نے بہت ہی انساپئر کیا اور میں نے اپنی زندگی میں ڈاکٹر منان جان جیسا بہادر اور موبلائزر نہیں دیکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر منان بلوچ قومی تحریک کے سب سے موبلائزر تھے۔ آج ان کی جگہ خالی ہے۔ وہ عوام سے تھے، عوامی لیڈر تھے اور بلوچ عوام ہی ان کے لئے سب کچھ تھا۔ شہید بلوچ قوم کے لئے مقناطیس کی مثل تھے وہ اپنے انقلابی اور دوستانہ رویہ سے مقناطیس سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے تھے۔

دل مراد بلوچ نے کہا ٰڈاکٹر منان بلوچ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ عظیم لیڈر، بہترین دوست، وسیع مطالعے کے حامل، راست گو اور عوام دوست تھے۔ انہوں نے موبلائزیشن کو عمل کو نئی جہت اور بلندی عطا کی۔ وہ سب سے پہلے سابقہ ادوار میں شہید ہونے والوں کے وارثوں اور سابقہ جہدکاروں سے ملے۔ انہیں ترغیب دی کہ آپ کے اجداد یا آ پ لوگوں کی جد وجہد کی تسلسل برقرار نہیں رہ سکے لیکن آج تحریک دوبارہ شروع ہوچکا ہے، آپ لوگ اپنا حصہ ادا کریں۔ یہ کریڈٹ ڈاکٹر منان جان کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس بات کی تشخیص کی کہ جدوجہد کی کامیابی کے لئے ضروری ہے دیہی علاقوں کو بنیاد بنایا جائے۔ یہی ڈاکٹر منان بلوچ کا موبلائزیشن کا عظیم کارنامہ ہے جس کا توڑ آج تک دشمن کے پاس نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ یکجہتی اور اتحاد کی بات کرتے ہیں اس پر میں دو واقعات بیان کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا اس بارے میں رویہ اور کوشش کس سطح کے تھے۔ سوشل میڈیا میں پارٹی اور پارٹی اتحادیوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ عروج پر تھا۔ لیکن نواب خیربخش مری کے وفات کی خبر آئی تومیں نے انہیں نیند سے جگایا۔ انہوں نے کوئٹہ میں دوستوں سے حال و حوال کی اور سرکاری منصوبے کی خبر ملی توانہوں نے سب سے پہلے نواب صاحب کے فرزند حیربیار مری کو تین دفعہ فون کیا مگر ان کی سیکریٹری کا ایک ہی جواب تھا کہ ”صاحب مہمانوں کے ساتھ مصروف ہیں“۔ اس کے بعد انہوں نے نواب صاحب کے دوسرے بیٹے مہران مری کو فون کی۔ جب بی ایل اے اور یو بی اے کے درمیان جنگ چڑی اور جہدکار شہید کئے گئے مہران مری نے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ اس کا حل نکالیں کیونکہ حیر بیار صاحب جنگ پر آمادہ ہیں تو ڈاکٹر منان بلوچ نے یہ قطعا نہیں دیکھا کہ ہیربیار صاحب نواب صاحب کے فوتگی پر خالص غیر سیاسی مسئلے پر بات کرنے انکاری رہے لہٰذا اب بات کرنا بیکار ہے۔ مگر انہوں نے فوراََ حیر بیار کا نمبر ملایا لیکن جواب وہی تھا کہ صاحب مصروف ہیں وغیرہ۔ یہ ان کا رویہ تھا۔ اپنے ہاتھوں متعدد ڈرافٹ لکھے مگرجواب ندارد۔ لیکن انہوں نے کوشش ترک نہیں کی بلکہ سراوان کے سفر کا ایک اہم مقصد اسی سلسلے کو آگے بڑھانا تھا۔ جس کا مثبت رزلٹ آج ہمارے سامنے ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ تیس جنوری کو ڈاکٹر منان جان کے ساتھ بابو نوروز، اشرف بلوچ، حنیف بلوچ اور ساجد بلوچ دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ تمام قابل ساتھی تھے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بابو نوروز اعلیٰ پائے کے دانشور تھے۔ انہیں مارکس ازم پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے حمید شاہین شہید کی سیاسی زندگی، افکار و نظریات پرقابل فخر کام کیا جو کتابی شکل میں سنگر پبلی کیشن کی جانب سے شائع ہوا۔ وہ مسلسل اپنی زندگی کے آخری دنوں تک لکھنے میں مصروف رہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ لیڈر تاریخ پیدا کرتا ہے۔ ارتقاء سینکڑوں سالوں کا سفر طے کرتا تب کہیں ایک لیڈر پیدا ہوتا ہے، لیکن کام کرنا، جہدکار پیدا کرنا لیڈر کا کام ہوتاہے۔ اسے ہم تاریخ یا ارتقا ء پر نہیں چھوڑ سکتے۔ جب یہ کام ہم تاریخ پر چھوڑ دیں تو میں سمجھتاہوں کہ یہ تحریک کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ڈاکٹر منان جان نے اپنے حصے کا کام بخوبی انجام دیا وہ اس میں کامیاب رہے۔ ہماری حصے کا کام باقی ہے۔

بی این ایم کے مرکزی فنانس سیکریٹری ناصربلوچ نے کہا ڈاکٹرمنان جان عظیم ہستی تھے۔ وہ ہمیشہ جہد مسلسل میں تھے۔ میرا تعلق تربت زون سے ہے۔ وہ جب بھی مکران کے دورہ پر آتے یا جلسوں، کارنرمیٹنگوں یا پارٹی اجلاس میں ان کا زور ہمیشہ موبلائزیشن، مطالعہ اور اسٹڈی سرکلز پر ہوتا کہ ان کے بغیر ہم نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ ان کی زندگی پارٹی اور جدوجہد کے لئے وقف تھا۔ جب اہم عہدوں پر نہیں تھے تو ان کا زیادہ وقت پارٹی امور کے لئے تھا اور جب سیکریٹری جنرل کے عہدے فائز ہوئے تو ان کے کام کرنے کے رفتار میں تیزی آئی۔ وہ ہمیشہ عوام، جہدکاروں کی تربیت میں مصروف رہے۔

ناصر بلوچ نے کہا کہ دوہزار دس کے کونسل سیشن کے بعد انہوں نے لٹریچر کے میدان میں بہت کام کیا اور بلوچستان کے کونے کونے میں پارٹی لٹریچر پہنچایا اورجہاں جہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے قدم رکھا ہے، وہاں کے لوگ زیادہ موبلائز ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بلوچ قوم کو ہمیشہ درس دیا کہ پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو برقراررکھنے کے لئے سماج میں مذہبی و نسلی منافرت اورقبائلی مناقشوں کو ہوا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ شہید ہمیشہ فرانزفینن کا حوالہ دیتے کہ تمام مذہبی و نسلی منافرت اور قبائلی مناقشوں کا اصل منبع قبضہ گیریت ہے۔ اگر لوگ اس حقیقت سے واقف ہوگئے تو ان کا ہدف اپنے بھائی کے بجائے دشمن ہوگا۔ آج اگر یہ مسائل ختم نہیں ہوئے ہیں مگر ان کی صورت حال ضرور بدل چکی ہے۔ یہ ڈاکٹر منان جان کے تعلیمات کی بدولت ہے۔

ناصر بلوچ نے کہا ڈاکٹر شہید جب بھی دوروں پر ہوتا تو مختلف پارٹی اور تنظیموں کے ساتھیوں سے یکساں ملتا۔ کبھی بھی یہ تاثر تک نہیں دیتا کہ آپ کا تعلق کسی اور تنظیم یا پارٹی سے ہے۔ انہیں یہی درس دیتا کہ تمام جہدکاروں کو ہمہ قسم کی تفریق سے بالاتر ہوکر قومی آزادی کے لئے جدوجہد اور اپنے قوم کو غلامی سے نجات کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر منان جان نے ہمیشہ قومی سوچ کو فروغ دینے کی کوشش کی تاکہ ہم ریاست کی بربریت اور تقسیم کے کوششوں کو ناکام بنائیں۔

انہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب کا کارکنوں کے لئے ترغیب ہمیشہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی، پارٹی پیغام پہنچانا اور مطالعہ تھا۔ وہ کارنر میٹنگ، جلسے اور عوامی تربیت پر ہمیشہ زور دیتے تھے اوربذات خود عوام میں موجود رہے۔ وہ سماج میں قبضہ گیریت اورغلامی سے پیدا مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہے اور اس میدان میں انہوں نے ناقابل فراموش کام کیا۔ عوامی موبلائزیشن کے لئے انہوں نے دشمن فوج کے چوکیوں میں گھرے علاقوں کا بلاخوف و خطر دورہ کیا۔ ایسے علاقوں میں کامیاب جلسوں کا انعقاد کرکے ثابت کردیا کہ عوام کی حمایت سے ہمہ قسم کے سیاسی کام ممکن ہیں۔

ناصر بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر شہید جہاں بھی گئے وہاں تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے ملے۔ میں جن دوروں میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تھا وہاں تما م لوگوں سے ملتے اور مذہبی طبقے سے ملنے کے لئے مسجدوں میں جاتے اور انہیں بھی جدوجہد میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے کہ ہماری تحریک کسی مخصوص مذہب یا طبقہ فکر کے لوگوں کے خلاف نہیں بلکہ ہماری جدوجہد اُس دشمن کے خلاف ہے جو ہماری سرزمین پر قابض ہے۔

بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر حسن دوست بلوچ نے ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ڈاکٹر منان بلوچ اور ان اہم ساتھیوں کی شہادت جو عملی طور پر سرگرم تھے اور تحریک کو آگے لے جانے میں بر سرپیکار تھے، یہ ہمارے لئے ایک سیاہ دن ہے۔ وہ حقیقی انداز میں بی این ایم اور بلوچ قوم کی نمائندگی کر رہے تھے۔ یہ ان کی محنت اور قربانی کا نتیجہ ہے کہ بی این ایم ایک بہت بڑے دشمن کے سامنے ایک دیوار کی طرح کھڑی ہے اور اپنا سفر جاری رکھے ہوا ہے۔ یہ غلام محمد بلوچ اور ڈاکٹر منان بلوچ سمیت کئی رہنماؤں کی شہادت اور قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے۔

حسن دوست بلوچ نے بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) کے مختلف اوقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں جب بھی ہم بی ایم سی ہاسٹل جاتے وہاں ڈاکٹر اللہ نذر اور ڈاکٹر منان بلوچ کے کمروں میں یہی بحث ضرور سننے کو ملتی تھی کہ آج کی سیاسی جماعتیں بی این ایم اور طلبا تنظیم بی ایس او وغیرہ اپنا حقیقی راستہ اور نعرہ چھوڑ کر عارضی اور گروہی مفادات کے گرد گھوم کر اسے بلوچ قومی سیاست کا نام دے رہے ہیں۔ اس کام کیلئے ڈاکٹر منان جان اس بات پر

زور دیتے تھے کہ بلوچستان کے جس علاقے تک ہم پہنچ سکتے ہیں ہمیں وہاں بلوچ قومی غلامی کے خلاف آگاہی دیکر قومی آزادی کیلئے کام کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منان کی شہادت کی خبر ایک ایسے وقت پر آئی جب دوبلوچ آزادی پسندوں تنظیموں میں آپسی جنگ جاری تھا۔ وہ اس آپسی جنگ کو ختم کرنے کی جد و جہد میں علمی طور پر مصروف تھے۔ وہ بلوچی روایت کے مطابق ان کے پاس گئے۔ ڈاکٹر منان کی قابلیت اور صلاحیتیں کسی دوسرے میں موجود نہیں ہیں۔ وہ اپنی ذات کو دفن کرکے اجتماعی انسانیت کا پیروکار تھے۔ وہ ایک ڈاکٹر تھا، ایک سوشل موبلائزر تھا، قوم پرست تھا، لیڈر تھا، ایک انتہائی مخلص کارکن بھی تھا۔ وہ کئی خصوصیات سے سرشار ایک شخصیت تھے۔ اب ہماری ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی تحریک پر حقیقت پسندانہ نظرثانی کریں۔ ہم کل کہاں تھے، آج کہاں ہیں اور کل کس طرف جا رہے ہیں۔ ہمیں ان شہدا کی تقلید کرتے ہوئے ان کے مشن کو پایہ تکمیلتک پہنچائیں۔ ہمیں انہی کی طرح اپنی ذات کو نفی کرکے اجتماعیت کیلئے کام کرنا ہے۔

حسن دوست بلوچ نے کہا ڈاکٹر منان بلوچ بی این ایم کے اس فلسفہ کو عملی طور پر آگے لے جارہے تھے، جو تمام آزادی پسندوں کی حمایت اور انہیں منظم کرنے میں مدد کرنا تھا۔ وہ دو تنظیموں کی آپسی جنگ اور چپقلش کو ختم کرنے کی سفر میں شہید بھی ہوئے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاست جبر سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔ ہمیں بیرون ملک اپنی بھرپور قوت اور صلاحیت کے ساتھ کام کرکے اس کے فوائد کو بلوچستان اور بلوچ عوام تک پہنچانا چاہیئے۔

نسیم عباس نے کہا کہ جب ہم وطن میں تھے یا آج وطن سے باہرہیں، ڈاکٹر منان جان مجھ سمیت ہمیشہ اپنے تمام کارکنوں سے رابطہ میں تھے اوررہنمائی کے موجود تھے۔ کارکنوں سے ان کے کوارڈینیشن کا طریقہ نہ صرف میرے بلکہ تمام کارکنوں کے لئے ایک بہترین موٹیویشن تھا۔ پارٹی دوستوں کے علاوہ تمام بلوچ جہدکاروں سے ان کا رویہ ہمیشہ دوستانہ تھا۔ شہید چیئرمین غلام محمد کے بعد اگر کوئی ورکر دوست اور پارٹی دوست رہنما تھا تو ڈاکٹر منان جان تھے۔

بی این ایم کے سینئر کارکن ستار عبدالرسول نے کہا پارٹی اداروں نے اپنے شہدا کو بھرپور خراج تحسین ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر منان جان ایک ایسے ہستی تھے جن کی پوری زندگی سیاست، سیاست کی نشوونما، عام بلوچ، سیاسی کارکنوں کی تربیت اور حوصلہ افرائی سے عبارت تھی۔ انہوں نے عوام اور کارکنوں کی تربیت، حوصلہ افزائی اور ان سے جڑے رہنے کو سیاست کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا۔ ہمیشہ پارٹی کے اندرونی مسائل و مشکلات کے لئے پیش پیش تھے بلکہ بلوچ قومی تحریک کے تمام اسٹیک ہولڈر سے ان کے بہترین مراسم تھے۔ بلوچ سیاست کو شعوری اور منظم طور پر آگے لے جانا ان کا اولین مقصد تھا۔ کسی قسم کے حالات ان پر اثر انداز نہ ہوئے بلکہ ہر صورت میں قومی ضرورتوں کے لئے سفر در سفر رہے۔

انہوں نے کہا ڈاکٹر جان کی شہادت نہ صرف بلوچ نیشنل موومنٹ کے لئے نقصان ہے بلکہ ایک ناقابل تلافی قومی نقصان ہے اور مجھے ڈاکٹر منان جیسا شخص نظر نہیں آتا ہے جو ان کا صحیح معنوں میں متبادل ہو۔ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت کے دن پر ہمیں ضرور سوچنا چاہئے کہ شہید منان جان کا مشن کیا تھا میں سمجھتا ہوں کہ نہ صرف پارٹی بلکہ پوری قومی تحریک کے حوالے سے ان کا ایک مشن تھا۔ ان پر سوچنا انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہمارا قومی فرض ہے۔

ستار عبدالرسول نے کہا کہ جس طرح آج پارٹی چیئرمین واجہ خلیل بلوچ نے اپنے پیغام میں کہا کہ ڈاکٹر منان جان نے اپنی موت و زندگی کا اختیار پارٹی کو تفویض کیا تھا، یہ معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ اس امر کا واضح دلیل ہے کہ ان کے لئے ادارہ اور ادارے کا فیصلہ مقدم تھا۔ وہ ہرصورت میں پارٹی میں جمہوری اقدار اور اجتماعی قیادت کا قائل تھا۔ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ ہمارے لئے پارٹی کو ہر بات ہر فوقیت حاصل ہے۔ آج ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس حد تک ڈاکٹر منان جان کے فکر و فلسفے پر گامزن ہیں۔ ادارہ جب مختلف عوامل و ارتقا سے گزر کر ایک ایسی چوٹی سرکرلیتا ہے پوری قیادت اور کارکنوں کوسرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے کہ یہاں تک ہم نے کیا حاصل کیا ہے اور کیا کیا حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہے ہیں۔ کمی اور کوتاہیوں پر نظر ڈالیں۔ محنتی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ جن جن سے کوتاہیاں ہوئی ہیں انہیں ایڈمٹ کریں، اپنی اصلاح کریں اوراس کے ساتھ اپنی صفوں کا جائزہ لے کراُن اصولوں پر گامزن ہوجائیں جن کیلئے ڈاکٹر منان جان نے اپنی زندگی گزاری اور جن کے لئے اپنی جان نچھاور کردی۔

بی این یوکے زون کے صدر حکیم بلوچ نے کہا میری زندگی کا یادگار لمحہ وہ تھا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود ڈاکٹر منان خوش اسلوبی اور انقلابی رویہ کے ساتھ ہم سے ملے۔ وہ ہسپتال میں بیماری کی صورت میں ہنسی خوشی اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ آج ہمیں سوچنا چاہئے کہ چارسال قبل ڈاکٹر منان بلوچ کیوں اپنی غیر محفوظ علاقے کا سفر کررہے تھے َتووہ وقت تھا جب دوتنظیم آپس آمادہ برجنگ تھے۔ یہ منان جان کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج انہی تنظیموں کے لوگ ایک مورچے میں دشمن کے خلاف لڑکر شہادت پا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں صرف شہداء کوخراج تحسین پیش کرنا قطعا کافی نہیں سمجھتا بلکہ ان کی مشن کی تکمیل کے لئے اپنا حصہ بھرپور ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ آج جہاں بھی پارٹی نہیں پہنچ پایا ہے یا کارکردگی میں کمی پائی جاتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی کی ہے۔ جدوجہد مسلسل عمل کا نام ہے۔

ترجمان نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک او ر اندرون بلوچستان مختلف زونوں نے اس دن کی مناسبت سے پروگرام منعقد کرکے ڈاکٹر منان جان اور ان کے ساتھیوں کو بھروپور خراج عقیدت پیش کیا۔

بی این ایم کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ شہدائے مستونگ کی یاد میں تیس جنوری کو جرمنی زون کی طرف سے ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ شہدائے مستونگ کی چوتھی برسی پر ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں بابو نوروز بلوچ، حنیف بلوچ، اشرف بلوچ اور ساجد بلوچ کو خراج تحسین اور سرخ سلام پیش کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ نے کی جبکہ مہمان خاص بی این ایم ڈائسپورا کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ تھے۔ اجلاس سے حمل بلوچ، ڈاکٹر نسیم بلوچ، زونل جنرل سیکریٹری اصغر بلوچ، بی این ایم کے سینئر رہنما حاجی نصیر بلوچ، سمیع اللہ ناتو اور بابا بوہیر جوہر نے خطاب کیا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے شہدائے مستونگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ زندہ قومیں اپنے شہدا، ہیرو اور رہنماؤں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ آج بلوچستان کے حالات ایسے ہیں کہ ہم اپنے شہدا کی برسی بھی ماضی کی طرح نہیں منا سکتے۔ مگر بیرون ملک یا جدید دنیا اور سائنسی ترقی کے نتیجے میں ہم دوسرے ذرائع سے اکھٹے ہوکر اپنے شہدا کو خراج تحسین پیش کرسک رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر منان بلوچ نے چھوٹی سی مدت میں ایسے کارنامے انجام دئیے کہ ان سے ایک کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ جب کبھی ان کے بھائی شہید نورالحق کی بات آتی تو وہ قومی جہد میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کرنے اور اس کردار سے پہچانے جانے کا ذکر کرتے تھے۔ وہ کہتے کہ میرے بھائی نے اپنے حصے کا فرض ادا کیا ہے، ہمیں اپنا حصہ خود ادا کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تین شہدا واجہ غلام محمد بلوچ، شہید ڈاکٹر منان بلوچ اور ڈاکٹر خالد بلوچ کی کمی ہر وقت محسوس کرتا ہوں۔ یہ تین ایسی شخصیات ہیں کہ انہوں نے ہمارے معاشرے کے ایک بہت بڑے حصے کو متاثر کیا اور انہیں موبلائز کیا۔ یہ خلا بھرنے کیلئے ہمیں صدیوں درکار ہوں گی۔ شہید غلام محمد اور ڈاکٹر منان بلوچ نہ ہوتے تو کئی اور لوگ اور سینکڑوں موجودہ کارکن اس تحریک کا حصہ نہ بنے ہوتے۔ بلوچ قومی تحریک میں شامل مختلف جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے، ایک اتحاد بنانے اور آپس میں رنجشیں ختم کرنے کیلئے ڈاکٹر منان جان نے از خود بحیثیت سیکریٹری جنرل بی این ایم اقدام اُٹھائے۔ ان میں انہیں کافی کامیابی بھی ملی۔ ان کا آخری سفر بی این ایم کو منظم کرنے کے ساتھ انہی رنجشوں کو ختم کرنے کیلئے تھا۔ غرض انہوں نے بلوچستان کے ہر کونے کا تنظیمی دورہ کیا۔ وہ جہاں کہیں بھی گئے یا ان کی میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے پوسٹنگ ہوئی وہاں آپ کو بی این ایم کے ممبر اور ہمدرد اور بلوچ قومی تحریک سے جُڑے لوگ ضرور ملیں گے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دیکر ہمہ وقت سیاست کو اپنا شعبہ اور بلوچ قومی تحریک کی خدمت کو اپنا پیشہ بنایا۔ ان قربانیوں سمیت وہ ایک صاحب علم اور کتابوں اور مطالعہ کا دلدادہ تھے۔ ان کے سفر کے سامان میں کتابیں ایک ضروری جز تھیں۔ وہ عالمی سیاست پر گہری نظر اور دسترس رکھتے تھے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ نے کہا کہ تیس جنوری بلوچ قوم کیلئے ایک سیاہ دن ہے۔ اس دن ہم نے ڈاکٹر منان کو چار ساتھیوں سمیت جسمانی طور پر کھو دیا۔ انہوں نے دن رات، سردی گرمی ہر حالات میں غلامی کے خلاف جد و جہد کے بی این ایم کے پیغام کو مند تمپ سے لیکر واشک اور خارا ن تک پہنچایا۔ آج بلوچ قومی تحریک کا بلوچستان اور بیرون ملک پذیرائی انہی کی قربانیوں اور انتھک محنت اور جد و جہد کا نتیجہ ہے۔ آج ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کاروان کو آگے بڑھائیں۔

جرمنی زون کے سمیع اللہ ناتو نے کہا کہ آج ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت کو چار سال ہوئے ہیں مگر وہ ہمارے لئے آج بھی زندہ ہیں۔ قوموں میں ڈاکٹر منان جیسے لیڈر بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے سیاست کو قومی فرض سمجھ کر اپنا کردار ادا کیا اور اپنی جان کی قربانی دیدی۔ وہ ایک ملنسار سیاسی استاد تھے۔ بابا بوہیر جوہر نے کہا کہ ڈاکٹر منان ایک درویش صفت اور خوش مزاج انسان تھے۔ آج دنیا میں اگر کوئی بلوچ قومی تحریک سے واقف ہے تو وہ ڈاکٹر منان کی جد و جہد کا ثمر ہے۔ وہ ایک پیغمبر کی حیثیت سے آئے تھے۔

بی این ایم کے سینئر رہنما اور سابقہ مرکزی فنانس سیکریٹری حاجی نصیر بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان جان ایک نہایت دور اندیش انسان تھے۔ وہ ایک گہری سیاسی بصیرت کے مالک تھے۔ وہ جو پیشنگوئیاں کرتے تھے، وہ اکثر درست ثابت ہوتے۔ وہ دشمن کی مظالم اور پابندیوں کے باوجود اس بات کا قائل تھے کہ ہمیں ہر حال میں اپنا کام جاری رکھنا ہے۔ وہ ہر بلوچ کی جھونپڑی تک پہنچ جاتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جب تک ہم عوام میں نہیں رہتے ہم اپنا جد و جہد آگے نہیں لے جا سکتے۔ وہ شہید ہوگئے لیکن ان کا فکر و نظریہ ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔

جرمنی زون کے جنرل سکریٹری اصغر علی نے کہا کہ داکٹر منان بلوچ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے ایک سیاسی کوریڈور ہے جس سے ہم ہروقت رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔ ان کی زندگی کا قدم قدم ہمیں ایک سبق دیتا ہے۔ ان کی دی ہوئی قربانی ہماری نسلوں کیلئے ایک موٹیویشن ہے۔