تصویر کہانی – برزکوہی

913

تصویر کہانی

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

وہ کمرہ جہاں وقت ساکت سی ہے، وہاں ایک بچے نے کانپتے ہاتھ میں گلاب پکڑا ہوا ہے۔ گلاب کی نرم پنکھڑیاں، ماں کے لمس جیسی ہوتی ہیں، پھر بھی وہ اس کی گرفت سے گرے جاتے ہیں۔ ہر کانٹا، ایک تیز و ٹھنڈی درد کی یاد دہانی ہے۔ اس درد کی، جس سے وہ نرم جلد کو کاٹ دیتا ہے۔ وہ تصویر، ماضی کی ایک کھڑکی ہے، جہاں کبھی ہنسی نے ہوا کو رنگ دیا تھا، اب یہ ایک یاد ہے، جو ایک نقصان و مایوسی کے سفر میں قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ بچہ اس خاموش فریم سے راز کی باتیں کرتا ہے، اور ایسے جوابوں کی امید رکھتا ہے، جو کبھی نہیں آئیں گے کیونکہ وہ ممتا، اب لامتناہی رات میں ایک ستارہ ہے، وسیع و گمنام راہوں میں، وہ ایک رہنما روشنی ہے۔

فطرت و سرشت کی رنگ برنگی رنگوں میں ایک بحر زخار، رنگ ممتا کی متروک ضمیران، ضمیروں کو بحر ندامت سے جھٹلانے و للکارنے والی یہ عکس ایک کہانی نہیں بلکہ ایک تاریخ، ایک آرٹ، ایک فن، ایک جنگ، ایک نسل اور ایک ایسا پود ہے، جس کی کوکھ سے نسلوں کی تباہی و قربانی، درد و کرب اور اذیتوں کی خزاں میں نخلہ فردوس کی طلمساتی و رجائت پسندی کی تخصیصی شعور ہے۔

اپنی ممتا سے ایک معصوم کا معصومانہ سوال: او ماں! اپنے پھول کو اپنی کوکھ میں پال کر، پھر جنم دیکر، لوری سنا سنا کر، پھر اچانک چھوڑ کر کروڑوں پھولوں کی آبیاری اپنے لہو سے کرنے کی عزم اور خود کو ریزہ ریزہ کرنا، اس وقت آپ پر ممتاء کیا گزر رہی تھی؟

میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس رات کی گہرائی میں آپ پر کیا گزری، جب ممتاء آپ سنسان سڑک کے کنارے بیٹھ کر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر، پیشانی پر بوسہ دیکر مجھے الوداع کہتے ہوئے، آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک اور دل کی دھڑکنوں کی آہٹ اور جاتے جاتے بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی رہی اور درد و ہجر کی ہلکی مسکراہٹ میں وکٹری کا نشان ہلا کر جارہی تھی۔

اے ماں! مجھے معلوم ہے یہ وہی وکٹری کا نشان ہے، جس کیلئے آپ ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے چھوڑ کر پروانہ بن کر، آگ میں میں کود کر سرزمین کی نگہت میں تحلیل ہوئی۔ ممتاء آگے جاکر ہم انتظار میں تھے، گاڑی کی انتظار گاہ میں، ابا ہم دونوں متروک ضمیران کو اپنے گود میں بٹھا کر دلاسہ دے رہے تھے کہ آپ کی ماں ہمارے اور ہماری نسلوں کے لیے آزادی لیکر واپس آئیگی اور دشمنوں سے شہیدوں کا حساب اور بدلہ لیگی، اور اب میں آپ دونوں کا صرف ابا نہیں اماں بھی ہوں، کیونکہ آپ دونوں کی ماں، بڑی ماں کے لیئے کچھ دن بعد قربان ہونے والی ہے۔

اے ماں! مجھے ابھی تک یقین نہیں آرہا ہے، آپ ہنستے ہوئے اپنے ہاتھوں میں کھلونا لاکر واپس نہیں آئی۔ ہاں ممتاء، میں کبھی کبھار صرف رات کو نیند میں خوابوں میں آپ کو دیکھتی ہوں، آپ مجھے سنوار رہی ہو، اسکول جانے کے لیئے تیار کرتی ہو۔ میں بہت خوش ہوتا ہوں، لیکن صبح جب اٹھتا ہوں تو صرف آپ کی خاموش تصویر میرے سامنے ہے، مگر آپ خود نہیں ممتاء، پھر میں ہر صبح اٹھ کر آپ کو پھول پیش کرتا ہوں، لیکن آپ نہ پھول اٹھاتی ہو، نہ مجھ سے بات کرتی ہو، بس میں سمجھ جاتا ہوں کہ آپ مجھ سے ناراض نہیں ہو، لیکن مجھے بتا رہی ہو کہ میرے پھول! لہو کی آبیاری کے بغیر آپ سمیت باقی کرورڑوں پھول پھر فناء ہونگے۔

ممتاء آپ سے ایک اور سوال؟ کیوں سب آپ کی طرح اپنی نازک پھولوں کو اس طرح دشت و صحرا میں چھوڑ کر نخلستان کی امید پر قربانی دینے کی ہمت نہیں کررہے ہیں؟ ممتاء دوسرے لوگ تو ابھی بھی اپنے پھولوں کی خوشی اور دھوم دھام سے سالگرہ منا رہے ہیں اور ان کو پڑھا رہے ہیں، اور ان کو عید کے لیئے شاپنگ سینٹر لے جارہے ہیں۔ ماں، کیا ہم دونوں پھول اور ابا جان آپ کو عزیز نہیں تھے؟ کیا ہماری شیطانیوں کی وجہ سے آپ بہت تنگ ہوکر ہم سے جدا اور ناراض ہوگئی؟

بس ماں، مجھے یقین ہے، آپ کا خاموش جواب یہی ہوگا کہ مجھے آپ سے اور آپ کی ابا جان سے زیادہ وطن عزیز ہوا، مجھے وطن سے عشق ہوا اور میں وطن کی محبوبہ بن کر وطن پر فدا ہوگئی۔ ممتاء بالکل، ہم ابھی آپ کے نہیں پورے راج و وطن کی ضمیران وطن بن چکے ہیں۔

بس ممتاء، ابھی یہی احساس، یہی سوچ، یہی خیال اور یہی تصور ہمارے دل و دماغ کو جھنجھوڑ رہی ہے کہ کیا آپ دونوں کی طرح، ہر ماں باپ اجلی سمجھ بن کر اپنے راج کے لیئے گھٹاٹوپ اندھیروں میں اجالا پاکھ بن جائینگے۔

ولی برانت (willy brandt)کہتے ہیں “کوئی شخص دوسروں سے زیادہ تر اس لیے ممتاز ہوتا ہے کیونکہ اس نے بہت زیادہ درد، اذیت، تکالیف اور مشکلات کا سامنا کیا ہوا ہوتا ہے۔ بڑے خواب، حتیٰ کہ اکثر کامیابی، بھوک، درد، تکلیف اور دکھوں کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ شاید اگر بچپن میں میں اپنے والدین کے گھٹنوں سے چمٹا رہا ہوتا تو ولی برانت آج ولی برانت نہ ہوتا۔”

عدم تخصیصی شعور، عدم مافوق البشر، عدم ہمت و عہد واثق، عدم فطانت، عدم شجاعت، جہل الجہل، غبی ذہن، سطحی و محدود سوچ، مصلحت پسندی، خوف و لالچ اور وقتی و مادی آسائش و پرتعیش زندگی اور کنفرٹ زون کی سحر میں کوئی بھی فرد و قوم اپنی بدترین معیار زندگی کو جسٹفائی کرنے کی خاطر جنگ، قربانی، محنت، بہادری، خطرہ مول لینے، بے غرضی، مخلصی، قوم دوستی و وطن دوستی کی عشق کی انتہاء کو علمی و سائنسی معیار علم سے نہ سمجھ سکے، نہ پرکھ سکے بلکہ عوامی و روایتی اور فرسودہ نقطہ نظر سے ان تمام حقائق کی تشریح و تعریف کو اپنی جہل بسیط سوچ و اپروچ کی آئینے میں دیکھ کر سمجھے تو اس کے نقطہ نظر میں جذباتیت، انتہاء پسندی، مہم جوئی، احمقی و بے وقوفی اور ادراک سے خالی شے اور حقائق ہونگے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ متذکرہ تمام شے و حقائق اور اصطلاحات ہمیشہ حقیقی معیار و تشریح اور جانکاری، علمی و دانشورانہ انداز میں صرف اور صرف دانشور ہی کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ابھی تک کوئی دانشور پیدا نہیں ہوا۔

جب قوموں میں قومی دانشور ناپید ہوں، تو وہاں ہر ایک عدم دانش کے ماحول میں دانشور بن کر تمام حقائق اور اصطلاحات کی تشریح و تعریف اپنے عدم دانشورانہ نقطہ نظر سے کرتا ہے۔ اسی وجہ سے کنفیوژن پیدا ہوتا ہے اور یہی قومی کنفیوژن ہمیشہ قومی ترقی و قومی تشکیل میں سب سے بڑا خلل بن جاتا ہے اور فرسودہ خیالات کو وقتی طور پر پردہ نشین کردیتا ہے۔

جنگ خود وہ اکیڈمی ہے، جو دن بہ دن اپنے سلیبس میں ہر شے، تمام حقائق اور اصطلاحات کی حقیقی تشریح اور حقیقی معیار کو خود حقیقی طور پر متعارف کرتی ہے اور روایتی و فرسودہ خیالات کی بیخ کنی کرکے انہیں طشت ازبام کردیتی ہے۔ باقی سنی سنائی اور روایتی تعریف و تشریح خود بخود معدوم ہوجاتی ہیں۔ بشرطیکہ قومی جنگ میں شدت و جدت ہو،
یہ ایک تاریخی مستند حقیقت ہے، جس کے بے شمار زندہ مثالیں آپ کو تاریخ کی صفحوں میں ملتے رہیں گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔