تربت: انتظامیہ کا ایک ہفتے میں جبری لاپتہ افراد کے بازیابی کی دہانی، لواحقین نے دھرنا موخر کردیا

111

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جاری دھرنا انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات اور آل پارٹیز کی یقین دہانی پر لواحقین نے دھرنا ایک ہفتے کے لیے موخر کردیا۔

جدگال ڈن (ڈی بلوچ) پر لاپتہ طالب علم نعیم رحمت اور دیگر جبری گمشدگان کی بازیابی کے لیے جاری دھرنا ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرکٹ چیرمین اور ڈی پی او ضیاء مندوخیل کی فیملی کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں ایک ہفتے کے لیے لاپتہ افراد کی بازیابی کی یقین دہانی پر ختم کردیا گیا۔

رات گئے انتظامیہ کی جانب سے جدگان ڈن (ڈی بلوچ) پوائنٹ پر جاکر لواحقین کے ساتھ مذاکرات کیے گئے اور انہیں ایک ہفتے کی مہلت دینے کی صورت میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق اہم پیش رفت کی یقین دہانی کرائی گئی جب کہ اس سے قبل آل پارٹیز کیچ کے وفد نے بھی فیملی کے پاس جاکر انتظامیہ کے ساتھ ثالثی کی صورت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کردار ادا کرنے کی کوشش کا ذکر کیا تھا جس پر لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ان کی یقین دہانی کے باعث ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے احتجاج موخر کردیا۔

لواحقین کے مطابق احتجاج کسی کو خامخواہ زحمت دینا یا اپنے لوگوں کو تکلیف دلانا نہیں ہے، ان کے مطابق ایک جانب ہمارے گھر کے سربراہ اور پیارے جبری طور لاپتہ کیے گئے ہیں جن کے بارے میں سال گزرنے کے باوجود ہمیں کچھ نہیں بتایا جاتا حتی کہ ہمارا مطالبہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ زندہ نہیں ہیں تو ان کی آمد کے امید پر ہمیں دھوکہ میں رہنے کے بجائے صاف بتایا جائے تاکہ ہم اپنی گھروں کی عزت اپنے نوجوان خواتین اور بوڑھے ماؤں کو دن اور رات روڈ اور سڑکوں پر زلیل و خوار نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ رات دن سڑکوں پر ذلیل و خوار ہونا شوق نہیں مجبوری ہے جن لوگوں پر یہ مصیبت پڑی ہے وہ اس کا درد بہتر سمجھتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہماری اس مجبوری کو کچھ لوگ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کرکے جبری گمشدگی کو جواز دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں ہمارے پیارے اگر آج واپس کیے جائیں تو ہم دوبارہ کبھی بھی سڑکوں پر زلیل و خوار ہونے نہیں آئیں گے اس لیے بلوچ عوام سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اگر ہمارا درد سمجھ کر ہمارے ساتھ نہیں مل سکتے مگر کسی بے جا پروپیگنڈہ کا حصّہ بھی نہ بنیں۔