بلوچستان میں پاکستان فوج کی مقبولیت، زمینی حقائق کیا بتاتے ہیں؟ – ٹی بی پی رپورٹ

1210

بلوچستان میں پاکستان فوج کی مقبولیت، زمینی حقائق کیا بتاتے ہیں؟

ٹی بی پی رپورٹ

تحریر: حماد بلوچ

امریکی حکومت کی مالی اعانت سے چلنے والی نشریاتی ادارے نے ہفتے کے روز پاکستان یوتھ سروے کے نام سے رپورٹ شائع کرتے ہوئے پاکستان فوج کو پاکستان کا سب سے بااعتماد ادارہ قرار دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ دوسرا سب سے با اعتماد ادارہ قرار پایا ہے۔

وائس آف امریکہ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ سروے بین الاقوامی ادارے اپسوس کے ذریعے کرایا تھا جبکہ اس سروے میں پورے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 18 سے 34 برس عمر کے 2 ہزار 50 افراد سے رائے لی گئی تھی۔

امریکی نشریاتی ادارے کے دعوے کے برعکس اپسوس کے اپنے ویب سائٹ پر اس سروے کے حوالے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کئے گئے ہیں اور نا ہی وائس آف امریکہ نے اپنے انگلش ویب سائٹ پر اس سروے میں بلوچستان حوالے اپنے دعویٰ کو شائع کیا ہے۔

اس تفصیلی سروے میں عوام نے میڈیا کو اعتماد کے حوالے سے تیسرا درجہ دیا جبکہ متعدد نوجوانوں نے فوج کی جانب سے انتخابات میں مداخلت کے خدشے کا بھی اظہار کیا ہے-

ادارے کا دعویٰ ہے کے انہوں نے سروے بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر صوبوں میں کئے جہاں 2 ہزار 50 افراد کی رائے لئے گئے۔

یہ سروے بلوچستان حوالے کیا کہتا ہے؟

امریکی ادارے کے اس سروے کے نتائج کے مطابق دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں فوج پر نوجوانوں کا اعتماد نسبتاً زیادہ ہے۔ سروے کے مطابق بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تقریباً 12 فیصد نوجوانوں نے فوج پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

ادارے کے مطابق بلوچستان جانا اور سروے کرنا ایک مشکل کام تھا تاہم یہ سروے زیادہ تر بلوچستان میں ٹیلی فون کے ذریعے کیا گیا۔ وائس آف امریکہ نے بلوچستان میں اپنے سروے پر مزید تفصیلات فراہم نہیں کیئے۔

بلوچستان میں زمینی صورتحال کیا کہتا ہے؟

تاہم بلوچستان میں زمینی صورتحال وائس آف امریکہ کے اس دعوے کے برعکس ہیں جہاں بلوچستان میں ریاستی پالیسیوں کے خلاف شدید عوامی تحریک جاری ہیں مقامی افراد پاکستان فوج اور اسکے ذیلی اداروں کو بلوچستان میں بدامنی اور جبری گمشدگیوں میں فوج کو ملوث قرار دیتے ہیں۔

بلوچستان کے سیاسی و انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے فوج و حکومتی پالیسیوں کے خلاف حالیہ دور میں شدید عوامی احتجاجی تحریک بھی سامنے آئی، حالیہ دنوں جبری گمشدگیوں و ماورائے عدالت جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کے قتل کے خلاف تربت سے اسلام آباد تک ایک لانگ مارچ کا کیا گیا جس کی قیادت ان افراد نے کی جن کا الزام تھا کہ فوج نے انکے پیارے لاپتہ کئے ہوئے اور بعد ازاں جعلی مقابلوں میں انکے پیاروں کو قتل کردیا گیا ہے۔

ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں “بلوچ نسل کشی کیخلاف لانگ مارچ” و بعدازاں اسلام آباد دھرنے کو دنیا بھر میں پزیرائی ملی۔ یہ لانگ مارچ بلوچستان سمیت دیگر جن علاقوں سے گذری وہاں ہزاروں افراد نے اس کا استقبال کرکے جبری گمشدگیوں اور جعلی مقابلوں کے خلاف اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ اسلام آباد پہنچنے پر لانگ مارچ شرکاء کو پولیس کی جانب سے تشدد کا نشانہ بناکر سینکڑوں افراد کو مختلف تھانوں میں منتقل کیا جس کے باعث اس تحریک کو مزید پذیرائی ملی۔

اسی طرح جنوری 2022 میں پاکستان اور چین کے لیے اہمیت کے حامل شہر گوادر میں فوجی چیک پوسٹوں پر مقامی افراد کی ‘تذلیل’ کے بعد شدید عوامی ردعمل بھی دیکھنے کو ملا تھا جہاں مولانا ہدایت الرحمان کے حق دو تحریک کی قیادت میں شہریوں نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر فوجی چیک پوسٹوں کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہوئے شہریوں کو آزادی سے رہنے کا مطالبہ کیا تھا-

بلوچستان میں پارلیمنٹ پرست سیاسی پارٹیوں کے بھی اپنے خدشات ہیں بلوچستان میں ایک حد تک اثرورسوخ رکھنے والے پارلمنٹیرین جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی بھی پاکستان کے دیگر وفاق پرست پارٹیوں کی طرح بلوچستان میں انتخابی عمل اور حکومتوں پر فوج اثرانداز ہونے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان میں ایک اہم مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے بلوچستان میں مقامی اور عالمی انسانی حقوق کے ادارے بیس ہزار سے زائد افراد کی جبری گمشدگی اور ان میں پاکستانی فوج اور ذیلی اداروں کو قرار دیتے ہیں۔ بلوچ سیاسی و سماجی حلقے وائس آف امریکہ کے سروے کو یکطرفہ قرار دیکر بے بنیاد سمجھتے ہیں۔

سروے پر عوامی ردعمل

وائس آف امریکہ میں شائع ہونے والے اس سروے کے بعد مختلف افراد اس پر تبصرہ کررہے ہیں۔ پاکستان فوج کے حمایتی اس سروے کو فوج کی مقبولیت میں ایک اہم کامیابی سمجھتے ہیں جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں اس سروے پر شکوک و شہبات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹوٹس کا ردعمل دیتے ہوئے کہنا ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی مقبولیت ان دعوؤں کے برعکس ہے اگر واقعی فوج ان علاقوں میں کوئی مقبولیت رکھتی تو انھیں سماج دشمن ڈیتھ اسکواڈ اور منشیات کے عادی افراد کی جانب سے حمایت یافتہ ریلی اور تشہیری مہم کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافی باہوٹ بلوچ گذشتہ دنوں کوئٹہ میں بلوچ لانگ مارچ شرکاء کے واپسی پر ان کے استقبالی ویڈیو شئر کرتے کہا ہے کہ ‫یہ ہزاروں افراد پاکستان فوج کے حق میں نہیں، بلوچستان کا ہر تیسرا گھر جبری گمشدگیوں و جعلی مقابلوں کے باعث متاثر ہے، وائس آف امریکہ کو تین مہینوں سے سراپا احتجاج عوام نظر نہیں آسکا جس میں ہر علاقے سے ہزاروں افراد نے احتجاج کرتے ہوئے نعرہ بلند کیا کہ ”یہ جو دہشتگردی ہے، اسکے پیچھے وردی“ ہے۔

باہوٹ بلوچ نے مزید کہا کہ وائس آف امریکہ کا آنلائن سروے شاید فوجی پشت پنائی میں چلنے والے این جی اوز کے ارکان کے ذریعے کیا گیا جس کا زمینی صورتحال سے دور تک واسطہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔‬

ان افراد کا ماننا ہے کہ بلوچستان میں فوج مخالف سوچ در اصل ریاست کے غلط پالسیوں کا نتیجہ ہے بلوچستان کے سیاسی مسئلے کو بندوق سے حل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے باعث فوج مخالف مسلح مزاحمت میں شدت آئی۔

سماجی حلقوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام میں فوج مخالف سوچ کی اہم وجہ فوجی چوکیوں پر شہریوں کی تذلیل، جبری گمشدگیاں اور لوگوں کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے باعث پیدا ہوا ہے۔ گذشتہ سال نومبر میں ایک ایسے ہی واقعے میں بالاچ نامی نوجوان کے حراستی قتل کے بعد بلوچستان بھر میں شدید ردعمل سامنے آیا جہاں لوگوں نے ان پالسیوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرائی جس کی قیادت بلوچ نوجوان اور خواتین کررہے تھیں-

یورپ میں مکین انسانی حقوق کے کارکن اور پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار رہنے والے وقاص گورایہ کا کہنا تھا وائس آف امریکہ کا سروے عسکری اثر و رسوخ سے ہوا ہے امریکہ میں مقیم شہری اس حوالے سے امریکہ میں اقدامات اُٹھائیں گے۔

وائس آف امریکہ سروے کے حوالے سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا کہنا تھا کہ پشتون علاقوں یا بلوچستان کے مشرقی حصے میں سروے کے نتائج الگ ہوں گے اور جھالاوان سے مکران تک اس کے نتائج یکسر مختلف ہوں گے۔

صحافی عابد میر کا کہنا ہے کہ سروے رپورٹس میں تیکنیکی گڑبڑ کرنا اور من پسند نتائج حاصل کرنا بھی آسان ہوتا ہے اور بلوچستان جیسے علاقے میں کسی سروے کو صوبے بھر کا نمائندہ کہنا کسی صورت درست نہیں۔

وائس امریکہ نے یورپ میں مقیم محقق اور بلوچستان سے متعلق امور کے ماہر حمل بلوچ کی رائے شامل کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی سطح پر ہونے والے سرویز میں پاکستان کے دیگر حصوں کے برعکس بلوچستان سے آنے والے نتائج حقائق سے زیادہ قریب نہیں ہوتے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے بلوچستان ملٹری آپریشنز کا شکار رہا ہے۔ اس وقت بھی بلوچستان میں زمینی حالات ایسے نہیں کہ کہا جاسکے کہ سب ٹھیک ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ملٹری آپریشنز، دہشت گردی کے واقعات اور احتجاجی لانگ مارچ جیسی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

حمل بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان جیسے علاقے میں جہاں خوف کی فضا ہو اور جہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہو کہ اگر اس نے کوئی ایسی ویسی بات کہہ دی تو اسے نقصان ہو سکتا ہے، تو وہاں لوگ کھل کر اظہار نہیں کر پاتے۔