میں تو درویش ہی کہونگا – نود شنز بلوچ

427

میں تو درویش ہی کہونگا

تحریر: نود شنز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تپتی ہوئی دھوپ ہو، شریانیں جما دینے والی سردی ہو، آندھی کا موسم ہو، بارش کا برسنا ہو، بادل کا گرجنا ہو، جنازوں کا اٹھنا ہو، غم کے گیت ہوں، خوشیوں کی لوریاں ہوں، اپنوں سے لڑنا اور روٹھنا اور پھر مان جانا ہو شاید یہ کسی ناول کی شروعات کی سی ہو لیکن میں تو اپنے نرمزاروں کی بات کر رہا ہوں، اپنے میار جلوں کی بات کر رہا ہوں، انکے سوچ کی بات کر رہا ہوں، انکے فکر کی بات کر رہا ہوں، انکے جذبے کی بات کر رہا ہوں، انکی ہمت اور حوصلے کی بات کر رہا ہوں، انکی محبت یا شاید عشق کی بات کر رہا ہوں جو میرے وطن کے عاشقوں کو ان حالات میں بھی اپنے بھائی جو شاید خونی رشتوں سے لاکھوں درجہ مضبوط اور درد مند ہیں، انکے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ مومن، اولیا اللہ، پیر ، درویش صفت انسان ہوں یا خدا کے برگزیدہ بندے ہوں انکو منفرد چند ایک اعمال بناتے ہیں نہ کے انکی شکل اور صورت۔ کیا ہیں وہ صفات؟ انکا اپنے پہاڑی درویشوں سے موازنہ تو کروں، ذاتی مفادات سے پرے انکا تخیل کا ہونا اور سوچنا تو کیا میرے درویش اپنے بارے میں سوچتے ہیں ؟ نہیں تو۔ ھر گز نہیں، اگر انکو میں خود غرض کہوں یہ تو میری اپنی انا، بغض، ضد، حسد، گھمنڈ اور دوسروں کو تنقید برائے تنقید کرنے کی منشاء و چاہت ہوگی۔ اپنے سر، جان، مال، عزت، ننگ و ناموس، غیرت اور عصمت کو ہتھیلی پر رکھ کر کسی ایسے مستقبل کیلئے کو شاں ہونا شاید ہی انہیں نصیب ہو۔ خود غرضی تو اپنے مفادات کو دوسروں کے مفاد پر ترجیح دینا ہے یا اگر میں صحیح معنوں میں کہوں تو ہر ایک کے فائدے سے منفرد اور اہم اپنا فائدہ سوچنا ہوتا ہے، یہاں تو یہ درویش زندہ رہنے کیلئے نہیں بلکہ اپنے نسل اور قوم کے زندگی کی جنگ لڑرہےہیں۔ دوسروں کیلئے سوچنا ہو تو اگر زندگی ہی قوم کے نام کی ہوئی ہو ان سے اور کیا چاہیئے؟

زندگی کو اپنے لوگوں سے، سیال اور وارثوں سے دور اپنے گلی محلے اور کوچوں سے دور گذارنا اور شاید ایک آزاد وطن کا خواب اپنی آنکھوں میں لیے مادر وطن کی پہاڑیوں میں در در بٹھکنا اور اسکو تکمیل تک پہنچانے کی صدا بلند کیئے دشمن پر کاری ضرب لگانا ہی انکے کردار کو بیان کر سکیگا۔ میں تو درویش ہی کہوں گا تم جو کہہ سکو کہو۔

انکا پاگل پن کہوں یا عشق جو ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جسکا کریڈٹ بھی لینا نہیں چاہتے، اگر چاہتے ہیں تو بس اتنا کہ انکی سرزمین پر سے یلغاری لوٹ جائیں اور اس پاک وطن کو غلاظت سے پاک کریں۔ ایسے صفت یافتہ کہ جو با وقت ضرورت ایک دوسرے کیلئے ماں، باپ، بھائی، بہن تک کا کردار ادا کرتے ہیں، میں درویش نا کہوں تو کیا کہوں؟

انسانی فطرت اس چیز کو قبول ہی نہیں کرتا کہ میرا کریڈٹ کسی اور کو یا مجھے سرے سے کریڈٹ ملے ہی نا؛ یہاں تو قصہ ہی الگ ہے نا کریڈٹ کی خواہش نا اجرت کی چاہت، میں تو درویش ہی کہونگا۔

نظریے اپنے ماننے والے اشخاص کی نہ صرف رہنمائی کرتی ہے بلکہ انہیں اپنے مقصد کے حصول کی تکمیل اپنی زندگی میں کرنے کے سوچ سے آزاد کرتی ہے اور انہیں یقین کے ساتھ لڑنے کیلئے اکساتی ہے کہ اگر وہ لڑیں گے تو انکے قوم اور انکی آنے والی نسلیں اسکے جہد سے بوئی ہوئی فصل کی کاشت کرینگے۔ نرمزار واقعی میں ہی شیر اور باغیرت ماں باپ کے جنے ہیں، کردار واقعی گفتار سے زیادہ چیخ کر اور پرزور اور با بلند آواز میں اپنی سچائی اور حق کی رونمائی کرتے ہوئے گونجتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔