امریکہ معاہدے کے بغیر افغانستان میں فوج کم کر سکتا ہے

125

امریکہ نے واضح کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ کسی بھی امن معاہدے کا تعلق افغانستان میں فوج کی تعداد میں کمی سے نہیں ہو گا۔ امن کوششوں سے قطع نظر افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی کی جا سکتی ہے۔

امریکہ کے وزیر دفاع مارک ایسپر نے خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ افغانستان سے امریکی فوج کی تعداد میں کمی طالبان کے ساتھ کسی بھی طرح کے امن معاہدے سے منسلک نہیں ہے۔

امریکی وزیر دفاع کا موقف امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حالیہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے حالیہ دورہ افغانستان کے دوران فوج کی تعداد میں کمی کا عندیہ دیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ افغان طالبان جنگ بندی پر رضا مند ہو جائیں گے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اگر فریقین جنگ بندی پر عمل کریں گے تو اس کی وجہ سے تشدد میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔ تاہم امریکی فورسز کی توجہ دو دیگر شدت پسند گروہوں داعش اور القاعدہ پر مرکوز رہے گی۔

مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں افواج کی تعداد کو کم کرنے کے لیے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ بھی مشاورت جاری ہے۔ البتہ امریکی وزیر دفاع نے یہ واضح نہیں کیا کہ امریکہ افغانستان سے کتنے فوجیوں کا انخلا چاہتا ہے۔

مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ فوج کی تعداد میں ممکنہ کمی کے باوجود وہ پرامید ہیں کہ افغان سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ نہیں بنے گی۔

مارک ایسپر سے پوچھا گیا کہ کیا افغانستان میں فورسز کی تعداد کو کم کرنے کا انحصار طالبان کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے پر ہو گا؟ تو ایسپر نے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی مزید کوئی وضاحت نہیں کی۔

سلامتی امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات طالبان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے۔ تاکہ وہ امریکہ کے ساتھ بات چیت میں لچک کا مظاہرہ کریں۔ ان کے بقول امریکہ چاہتا ہے کہ امن معاہدے کے بعد طالبان افغان حکومت سے بات چیت کریں جس سے وہ ماضی میں گریزاں رہے ہیں۔

طلعت مسعود کہتے ہیں کہ امریکہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ فورسز میں کمی کے باوجود وہ افغان حکومت کی حمایت کے ساتھ افغانستان میں امن قائم رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

افغانستان میں تعینات رہنے والے پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان سے متعلق مختلف بیانات آ رہے ہیں۔ ایک جانب امریکہ انخلا کی بات کرتا ہے۔ اور دوسری جانب وہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کا بھی خواہاں ہے۔

رستم شاہ مہمند کے بقول امریکی وزیر دفاع کے بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ ہر قیمت پر افغانستان سے انخلا کا خواہاں ہے۔ چاہے کوئی معاہدہ ہو یا نہ ہو۔

امریکی وزیر دفاع کے اس بیان پر تاحال طالبان نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔ البتہ طالبان پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ وہیں سے جوڑنے کو تیار ہیں جہاں سے ٹوٹا تھا۔

افغانستان میں لگ بھگ 13 ہزار امریکی فوجیوں کے علاوہ نیٹو افواج بھی تعینات ہیں۔ امریکی حکام یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ امریکی فوج کی تعداد آٹھ ہزار چھ تک محدود کی جا سکتی ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال ستمبر میں امن مذاکرات صدر ٹرمپ نے اچانک ختم کر دیے تھے۔ یہ مذاکرات ایسے وقت میں ختم کیے گئے جب فریقین نے ایک مجوزہ امن سمجھوتے کے مسودے پر اتفاق کر لیا تھا۔