بلوچ خواتین کی گرفتاری پارلیمانی جماعتوں کی منہ پر طمانچہ ہے ۔ ڈاکٹر اللہ نظر

979

بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا بلوچستان کے مختلف علاقوں سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں بلوچ خواتین کے اغواء کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کی مہذب دنیا میں اس طرح کی بربریت کی مثالیں بہت کم ہیں جو پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے بلوچ قوم پر ڈھا رہے ہیں،گزشتہ چوبیس گھنٹے میں صرف آواران سے چار خواتین کو ایک کمسن بچے کے ساتھ اغواء کرکے ٹارچر سیلوں میں منتقل کیا گیا ہے، اسی طرح ڈیرہ بگٹی سے قابض فوج اور سرکاری ڈیتھ اسکواڈ کے سرفراز بگٹی کے کارندوں نے بھی بلوچ خواتین کو اغوا کرکے لاپتہ کیا، یہ واقعات عالمی طاقتوں اور انسانی حقوق کے اداروں اور علمبرداروں کے لئے آنکھ کھولنے والی صورتحال اور خطرے کی گھنٹی ہونی چاہئیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔

انہوں نے کہا نام نہاد قوم پرست جو پارلیمنٹ اور پاکستان کی وفاقی نظام کو بلوچ مسائل کا حل گردانتے ہیں، ایسے واقعات ان کا ضمیر جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہونی چاہیئں۔ پاکستانی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر ان واقعات کی تماش بینی پر بلوچ قوم انہیں ایک دن ضرور احتساب کی عدالت میں کھڑا کریگی۔

اختر مینگل نے بلوچ مسنگ پرسنز کے نام پر پاکستانی انتخابات کے لئے بلوچ قوم کے جذبات سے کھیل کر فوجی اسٹیبلشمنٹ کے دل میں نرم گوشہ پیدا کیا اور حکومت کا حصہ بن گئے، مگر نہ مسنگ پرسنز بازیاب ہوئے اور نہ ہی فوجی بربریت کا خاتمہ ہوا بلکہ مظالم کی شدت میں اضافہ ہوگیا ہے، البتہ اخترمینگل کا ضرور بھلا ہوا ہے، وہ نہ سرکار میں ہیں اور نہ اپوزیشن میں،اس کے باوجود دونوں کا حصہ ہیں کیونکہ اصل مرکز سے معاملات طے پاچکے ہیں،لیکن یہ یاد رکھیں کہ قوم کی مجبوریوں کو سیڑھی بناکر اقتدار کی غلام گردشوں میں کھوجانے والوں کو بلوچ نے نہ پہلے معاف کیا ہے اور نہ آئندہ کرے گی۔

بلوچ آزادی پسند رہنماء نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کی عوامی پذیرائی، طویل جدوجہد اور کامیابیوں کو دیکھ کر پاکستان سراسیمگی کا شکار ہے، بلوچ قوم ایسی حرکات سے اپنی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوگا بلکہ ان کے جوش و جذبہ اور بدلے کی آگ میں شدت آئیگی، یہ بلوچ قوم کی نفسیات، فطرت اور روایات میں شامل ہے کہ بلوچ خواتین پر حملے کو پوری قوم اور بلوچ غیرت پر حملہ سمجھا جاتا ہے، اس کیلئے بلوچ قوم ماضی میں یکجہتی کا اظہار کرچکی ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔ یہ پاکستان کی بھول ہے کہ ایسی اوچھی ہتھکنڈوں سے بلوچ قوم کو زیر کرنے میں کامیاب ہوجائیگی۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ آواران پیراندر سے بی بی نازل، حمیدہ بلوچ اور آواران ماشی سے سید بی بی اور آواران ہارونی ڈن سے بی بی سکینہ کو پاکستانی فوج نے اغوا کرکے لاپتہ کیا ہے۔ یہ بلوچ سمیت تمام پارلیمنٹیرینز کے منہ پر تھمانچہ ہے جو جمہوریت کا راگ الاپ کر ایک غیر فطری اور بدماش ریاست کو بلوچ غیرت اور خون کے عوض مضبوط بنانے میں مصروف ہیں۔ پاکستانی فوج ہماری عزتیں تارتار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ ایسے میں نام نہاد قوم پرست اور مذہبی رہنما یہ جواب دیں کہ وہ کشمیر اور فلسطین پر شور مچانے میں دیر نہیں کرتے مگر بلوچستان پر وہ اپنے لب سی لئے ہوئے ہیں۔ وہ جواب دیں کہ آیا کشمیر میں یہ سب کچھ ہورہا ہے جو آج بلوچستان میں پاکستانی فوج نے روا رکھا ہے؟ یہ نام نہاد اسلام کے دعویدار ناروے میں قرآن شریف جلا کر شہید کرنے پر واویلا مچاتے ہیں مگر پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں فوجی آپریشنوں کے دوران بے شمار قرآن مجید جلانے پر خاموشی پر اکتفا کر چکے ہیں۔ یہ نام نہاد قوم پرستوں، وفاق پرستوں اور علمائے دین کی بددیانتی کی واضح مثالیں ہیں۔