امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 20 – مشتاق علی شان

151

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

امیلکار کیبرال | جدوجہد اور افکار | قسط 20
مصنف: مشتاق علی شان

قومی آزادی اور ثقافت | حصہ اول

بین الاقوامی قانون قومی آزادی کی جو چاہے تعریف مقرر کرے، ہماری رائے میں قومی آزادی کی اساس ہر قوم کے اس حق پر ہوتی ہے کہ اس کی تاریخ خود اس کی قدرت میں ہو۔ چنانچہ قومی آزادی کا نصب العین یہ ہوتا ہے کہ وہ حق دوبارہ حاصل کر لیا جائے جو سامراجی غاصبوں نے چھین لیا ہے۔ یعنی قوم کی پیداواری قوتوں کی ترقی کے عمل کو آزاد رکھنے کا حق۔ لہذا قومی آزادی فقط اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب قوم کی پیداواری قوتیں ہر لحاظ سے غیر ملکی غلبے سے آزاد ہو چکی ہوں۔ صحیح معنوں میں پیداواری قوتوں کی آزادی اور نوآزاد عوام کے ارتقا کے لیے سب سے زیادہ موزوں طریق پیداوار منتخب کرنے کی آزادی سے ہی معاشرے میں ترقی کا رستہ اختیار کرنے کی صلاحیت دوبارہ پیدا ہوتی ہے اور اس طرح ثقافتی ترقی کے بالکل نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔

اپنے آپ کو غیر ملکی غلبے سے آزاد کرانے کے بعد ایک قوم ثقافتی طور پر آزاد صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ الجھنوں کے بغیر اور استحصال کرنے والوں سمیت دنیا کی دیگر ثقافتوں سے جو مثبت سبق سیکھے گئے ہیں ان کی اہمیت کو کم سمجھے بغیر وہ قوم خود اپنی ثقافت کو اونچا لے جانے والے رستوں پہ واپس پلٹ آئے اور جان لے کہ قومی ثقافت کی پرورش خود اپنے ماحول کی زندہ حقیقتوں کے تحت اور طفیل ہی ہو سکتی ہے اور غیر ملکی ثقافت کے غلبے اور نقصان دہ اثرات سے انکار قومی ثقافت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں سامراجی غلبے کو ثقافتی استحصال کرنے کی سخت ضرورت ہوتی ہے وہاں قومی آزادی بھی لازماََ ثقافت کا ہی ایک عمل ہوتی ہے۔

قومی آزادی کی تحریک کو ہم جدوجہد کرنے والے عوام کی ثقافت کا سیاسی اظہار کہہ سکتے ہیں۔ اسی لیے جو لوگ تحریک کی نمائندگی کرتے ہیں انھیں جدوجہد کے سیاق وسباق میں ثقافت کی قدروقیمت کا صحیح اندازاہ ہونا چاہیے اور اقتصادی ترقی کے معیار سے قطع نظر عوامی ثقافت کا بہت گہرا علم ہونا چاہیے۔

ہمارے زمانے میں یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ دنیا کی تمام قومیں اپنی اپنی ثقافت رکھتی ہیں۔ وہ وقت کبھی کا گزر چکا جب عوام پہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے ثقافت کو بااختیار اقوام کی خصوصی صفت سمجھا جاتا تھا اور کبھی جہالت اور کبھی کمینگی کی بنا پہ ثقافت کو تکنیکی صلاحیت بلکہ چمڑی کی رنگت اور آنکھوں کی ساخت تک کے ساتھ گڈ مڈ کیا جاتا تھا۔ عوامی ثقافت کے محافظ اور ترجمان کی حیثیت سے تحریک آزادی کو اس حقیقت کا احساس ہونا چاہیے کہ معاشرے کے چاہے جن مادی معاملات کا عکس ثقافت میں ملتا ہو معاشرہ ہی ثقافت کا گہوارہ بلکہ ثقافت کا خالق ہوتا ہے۔ مزید برآں تحریک کی آزادی کو عوامی اور مروج ثقافت اپنانی چاہیے کیوں کہ ثقافت پہ معاشرے کی کسی ایک ٹکڑی یا گنتی کی چند ٹکریوں کا خصوصی حق یا اختیار نہ ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے۔

جدوجہد کی ضرورت کے مطابق آزادی کی تحریک کو سماجی ڈھانچے کا مکمل تجزیہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس تجزیے میں معاشرے کے ہر گروہ کی ثقافتی خصوصیات کو علیحدہ علیحدہ صحیح طور پر سمجھنے کی اہمیت بہت مرکزی ہے کیوں کہ ثقافت ہوتی تو عوامی نوعیت کی ہے مگر ہموار نہیں ہوتی اور معاشرے کی مختلف ٹکریوں میں ثقافتی ترقی متوازن یا مساویانہ نہیں ہوتی۔ آزادی کی جدوجہد میں ہر ٹکڑی کا رویہ اس کے اقتصادی مفادات کے تابع ہوتا ہے۔ مگر اس رویے پہ ثقافت کا بھی گہرا اثر پڑتا ہے بلکہ یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ جدوجہد کی بابت ایک ہی معاشرتی اقتصادی ٹکڑی کے اندر مختلف افراد کے رویے میں فرق اور اختلاف بھی ہم ثقافتی ترقی کے ناہموار معیاروں کے تحت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ بات سمجھ کر ہی ہر فرد اپنے لیے ثقافت کی بھرپور اہمیت دریافت کرتا ہے کیوں کہ اپنا ماحول ٹھیک سے سمجھنے اور اس ماحول میں جذب ہوجانے کی ضرورت ہوتی ہے، معاشرے کے عام عزائم اور مسائل کے ساتھ وابستگی پیدا کرنی ہوتی ہے، ذہنی طور پر قبول کرنا ہوتا ہے کہ معاشرے میں ترقی کے اسباب اور امکانات موجود ہیں۔

ہمارے ملک میں بلکہ ہم کہیں گے کہ پورے افریقہ میں ثقافتی معیارات کی عمودی اور غیر عمودی تقسیم خاصی پیچیدہ ہے۔ دراصل دیہات اور شہروں کے مابین ایک نسلی گروہ سے دوسرے نسلی گروہ تلک، پرانی اور نئی نسلوں کے بیچ کسانوں سے مزدوروں تک اور مزدوروں سے ان مقامی دانشوروں تلک جو کم وبیش غیر ملکی ثقافت قبول کر چکے ہیں، بلکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں۔ ایک ہی سماجی گروہ کے اندر مختلف افراد کے مابین ثقافتی معیار کیفیتی اور مقداری اعتبار سے کافی حد تک بدلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ حقائق نظر میں رکھنا آزادی کی ہر تحریک کے لیے بے حد اہم ہے۔

نوآبادیاتی غلبے کا تجربہ یہ ہے کہ استحصال برقرار رکھنے کی کوشش میں نوآبادیاتی حکمران نہ صرف محکوم لوگوں کی ثقافتی زندگی دبانے اور مٹانے کے لیے ایک پورا نظام بناتے ہیں بلکہ آبادی کے ایک حصے میں قومی ثقافت سے برگشتگی (qlienation) بھی پیدا کی جاتی ہے۔ طریقے دو ہیں، ایک تو مقامی افراد کو سامراجی ملک کی ثقافت سکھلا کر سامراجی معاشرے کا حصہ بنایا جاتا ہے، دوئم مقامی اشراف اور عوام کے درمیان سماجی خلیج پیدا ہوتی ہے۔ معاشرے میں اس طرح اندرونی تقسیم پیدا کرنے اور فروغ دینے کے اس عمل سے آبادی کی ایک خاصی بڑی ٹکڑی بالخصوص شہری اور دیہاتی نچلی بورژوازی نوآبادیاتی حکمران کی ذہنیت قبول کر لیتی ہے اور خود اپنے عوام سے اپنے آپ کو برتر تصور کرتی ہے اور ان عوام کی ثقافتی قدروں کو خاطر میں نہیں لاتی۔ نوآبادی کے پیشتر دانشور اس صورتحال کے شکار ہوتے ہیں اور جو گروہ سامراجی معاشرے کی ثقافت قبول کر کے خود اپنی ثقافت سے بیگانہ وبرگشتہ ہوگیا ہے اس کے لیے سماجی مراعات اور اختیارات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس گروہ کے ہر فرد کا تحریکِ آزادی کی بابت رویہ ان حالات سے متاثر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے آزادی کی تحریک میں میں لوگوں کے مکمل طور پر گھل مل جانے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ان کے ذہن یعنی سوچ کے انداز اور مناسبات میں مکمل تبدیلی آ جائے۔ یہ تبدیلی جدوجہد سے پہلے بھی آسکتی ہے مگر مکمل فقط جدوجہد کے دوران ہی ہوسکتی ہے کیوں کہ عوامی قوتوں کے ساتھ رابطہ قربانیوں کی اس رفاقت اور مساوات کے ذریعے بنتا ہے جو ہر جدوجہد خراج کے طور پہ مانگتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔