شہدائے اگست کے حوالے سے آنلائن کانفرنس اور بلوچستان میں ریفرنسز کا انعقاد کیا گیا ۔ بی این ایم

236

ماہ اگست کے شہداء اورشہدائے تراتانی کے تیرویں برسی کے موقع پر بلوچستان میں ریفرنس پروگرام کے علاوہ آن لائن کانفرنس منعقد کی گئی۔ آن لائن کانفرنس میں مرکزی رہنماؤں سمیت ڈائسپورا اور مختلف زون کے کارکنان و رہنماؤں کی شرکت۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب بلوچ آزادی پسند رہنما شہید نواب اکبر خان بگٹی و ان کے ساتھیوں کے یوم شہادت کے موقع پر ماہ اگست کے شہدا کو یاد کرنے، انہیں خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی زندگی، جدوجہد و تعلیمات کو یاد کرنے کے حوالے سے بلوچستان میں ریفرنس پروگرام کے علاوہ ایک آنلائن انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ آن لائن پروگرام میں بی این ایم کے مرکزی انفارمیشن و کلچرل سیکریٹری دلمراد بلوچ، بی این ایم ڈائسپورا اور زونل رہنماؤں اور ارکان نے شرکت کی۔

آن لائن کانفرنس کی صدارت بی این ایم ڈائسپورا کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ آج کا دن شہید نواب اکبر خان بگٹی اور ساتھیوں کی شہادت کا دن ہے۔ آج کے دن ریاست پاکستان نے بلوچستان کے پیران سالہ رہنما اور ان کے ساتھیوں پر بمباری کرکے انہیں شہید کردیا لیکن قابض یہ بھول چکا تھا کہ قومیں مرنے سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ اس طرح کی قربانیاں آزادی کے منزل کو مزید قریب کر دیتی ہیں۔ ڈاکٹر نسیم نے مزید کہا کہ اگست کے مہینے میں شہیدوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ روزانہ کسی شہید کی شہادت کا دن ہوتا ہے۔ اگست کے مہینے میں ہمارے بہت سے دوست، ساتھی، ہمراہ اور رہنما ہم سے جدا کیئے گئے ہیں۔ اس مہینے کی تاریخی حوالے سے بھی ایک اہم حیثیت ہے کہ اسی مہینے بلوچستان کو برطانوی قبضہ گیریت سے آزادی حاصل ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ نے مزید کہا کہ ہمارے دوستوں کی قربانیاں ہم سے یہ تقاضا کرتی ہیں ہم اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہوئے ان شہیدوں کی ذمہ داریاں بھی اپنے کاندھوں پر اٹھا کر زیادہ بہتر انداز سے قومی تحریک کی خدمت کریں۔

کانفرنس سے بی این ایم کے رہنما و مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دلمراد بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کی تاریخ قربانیوں، شہادت اور بلوچ قومی ننگ کی تحفظ کی دفاع سے بھری ہے لیکن جب بھی تاریخ میں عظیم کرداروں کا ذکر ہوگا تو یقیناً نواب اکبر خان بگٹی کا نام سنہرے الفاظ میں لکھا جائیگا۔ نواب اکبر خان شہید اور ان کے ساتھیوں کی وطن پر قربان ہونے کے جذبے نے بلوچ سماج پر ایک ایسا اثر مرتب کیا ہے جس کی بدولت بلوچ قومی تحریک کو روکنا ناممکن ہوچکا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رہنماوں کے نقش قدم پر بلا خوف و جھجک چلتے ہوئے ان کی قربانیوں کو بلوچستان کی آزادی کی صورت میں تبدیل کرکے انہیں حقیقی طور پر خراج تحسین پیش کرنے کے مستحق بن سکیں۔ دلمراد بلوچ نے مزید کہا کہ اس طرح کے کانفرنسز کا انعقاد تنظیمی ساتھیوں کی ذہنی نشونما و شعوری بنیاد پر تحریک کو سمجھنے کیلئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

بی این ایم یوکے زون کے نائب صدر حسن دوست بلوچ نے کہا کہ آج شہید نواب اکبر خان بگٹی اور ساتھیوں کی شہادت کا دن ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم ایماندارانہ طور پر اپنے آپ کو اور اپنی تحریک کا مطالعہ کریں کہ کیا ساتھیوں کی قربانیوں، شہادت، ٹارچر سیلوں میں اذیتوں کی بدولت جو جدوجہد ہمیں میسر ہوئی تھی کیا ہم جمہوری و سیاسی حوالے سے اسی طرح جدوجہد کو ایندھن فراہم کررہے ہیں؟ کیا ہم، جنہیں آج بلوچستان سے دور زندگی گزارنے پر مجبور کردیا گیا ہے، کیا ہماری آواز اور ہماری پہچان لوگوں میں اسی طرح باقی ہے؟ ہمیں سوچنا چاہیے اور ایمانداری سے بہتر انداز میں جدوجہد کرنے کی خاطر اپنے آپ میں انقلابی و جمہوری تبدیلی لانا چاہئیے۔

بی این ایم یونان کے رہنما قدیر ساگر نے شہدائے تراتانی و شہدائے اگست کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواب اکبر خان بگٹی کی خواہش بلوچ قومی سنگل پارٹی کی تشکیل کو پورا کرکے ہی ایک بہتر و منظم تحریک کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔ ہمیں اپنے چھوٹے اختلافات، گروہی مفادات و اَنا کے دلدل سے نکل قومی و اجتماعی حوالے سے سوچنے کی ضرورت تاکہ قومی تحریک کی بہتر انداز میں آبیاری کی جاسکے۔

اجلاس سے بی این ایم یوکے زون کے صدر حکیم واڈیلہ، بی این ایم یوکے زون کے رکن شہزاد بلوچ، بی این ایم نیدر لینڈز زون کے ساتھی رضا بلوچ سمیت دیگر نے اپنے خیالات کا بھی اظہار کیا۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شہید نواب اکبر خان بگٹی کی برسی کے موقع پر ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ریفرنس کے مہمان خاص مرکزی فنانس سیکریٹری ناصر بلوچ تھے۔ ریفرنس سے ناصر بلوچ اور دیگر مقررین نے خطاب کیا اور نواب صاحب کو خراج عقیدت اور سلام پیش کی۔

مقررین نے کہا کہ بلوچ قوم کے رہنما، چھوٹے بچے اور بوڑھے سب پاکستانی ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ قابض ریاست اس بات سے بھی آشنا ہو کہ اس بہتے خون نے ایسے بہادر جوان پیدا کیئے ہیں کہ وہ ایک مکمل وابستگی کے ساتھ اس جہد آزادی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب اس جہد کو پاکستانی ظلم و جبر سے نہیں روکا جا سکتا۔ گوکہ دشمن اس بربریت میں روز بروز شدت لا رہی ہے مگر بلوچ قوم بھی ذہنی پختگی کے ساتھ نظریاتی و شعوری طور پر اس کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔