گوادر حملہ کتنا اہمیت رکھتا ہے ؟ – توارش بلوچ

384

گوادر حملہ کتنا اہمیت رکھتا ہے ؟

توارش بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جنگ حکمت عملیوں کا نام ہے، اگر آپ کے ساتھ بہتر، موثر، اچھے اور ناسمجھ آنے والی حکمت عملیاں ہیں، تب ہی آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جنگ میں تعداد، اسلحہ، بارود، بندوق اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنی اہمیت آپ کی جنگی حکمت عملیاں طریقہ کار اور ٹارگٹ حاصل کرنا اہمیت رکھتا ہے۔ جیسے کہ ہم نے کیوبا، ہندوستان، ویتنام میں دیکھا کہ ایک جانب بڑی طاقتیں تھیں، جن کے ساتھ جنگی ہیلی کاپٹر، ٹینک سمیت سارے جنگی اوزار تھے لیکن اس کے باوجود اُن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گوریلا ساتھیوں کے ساتھ اچھے اور بہتر موثر جنگی حکمت عملیاں تھیں، جنہوں نے طاقت ور قابضوں کو لاچار کیا کہ وہ ان کی گلزمین سے نکل جائے۔ جنگ میں سب سے زیادہ اہمیت آپ کے جنگی طریقہ کار ہوتے ہیں کہ تین چار ساتھیوں کو بھی آپ ہزاروں کی تعداد کے حساب سے استعمال کر سکتے ہیں اس کے علاوہ اگر آپ ایک انقلابی جنگ کر رہے ہیں تو اس میں دو چیزیں بہت ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان پر آپ کی کامیابی و ناکامی انحصار کرتی ہے۔ ایک دشمن کو مسلسل نقصان پہنچانے کا عمل، جس سے دشمن آپ کی غیر موجودگی کے وقت بھی آپ کی موجودگی کا احساس رکھتا ہے، آپ کے نہ ہونے کی صورت میں بھی آپ کے ہونے کا ڈر رکھتا ہے، اس سے دشمن ایک طرف زہنی امراض میں مبتلا ہوتا ہے تو دوسری جانب دشمن کو اپنی شکست کا احساس وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے کیونکہ جنگ میں ڈر خود اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہے اور دوسری بات اپنے قوم کو مسلسل یہ احساس دلانا کہ وطن کے نرمزار جہدکار یا بلوچوں میں سرمچار اپنے قوم کیلئے لڑ رہے ہیں اور قوم کو مسلسل اس کا احساس ہونا ضروری ہے کہ اُن کیلئے لڑنے والے اپنی زندگیاں دے رہے ہیں، قربان ہو رہے ہیں، مر رہے ہیں، جن سے محب وطنی، قوم دوستی، وطن دوستی قائم و دائم رہتی ہے۔ جن کے دل میں آپ کیلئے عزت احترام قدر کے ساتھ ساتھ آپ کیلئے اُن کے دل میں جذبہ قائم رہتا ہے۔ ایک انقلابی جنگ میں جذبہ قائم رہنا بہت معنی رکھتا ہے۔ اور اس کا بہترین طریقہ آپ کی قربانیاں ہیں، جب تک آپ دشمن سے جنگ جاری رکھیں گے بے مثال قربانی دیتے رہیں گے تو آپ کا اور قوم کا خودبخود ایک رشتہ جڑ جاتا ہے، اگر قوم آپریشن، ٹارچر، اذیت و کرب برداشت کر رہا ہے تو ایسے قربانیاں اُن کو یہ احساس دلاتے رہیں گے کہ اگر ہم دشمن کی قہر کو برداشت کر رہے ہیں تو دوسری جانب وطن پر ہمارے محافظ ہمارے ہیروز ہمارے سرمچار اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، جن سے اُن کے دل میں قربانی کا جذبہ مزید مستحکم ہو جاتا ہے۔

جیسا کے ہم بات کر رہے تھے گوادر حملے کی اہمیت کے بارے میں، چونکہ میں نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ جنگ میں موثر حکمت عملی بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ پچھلے چھ سالوں سے چین کسی بھی طرح بلوچستان میں آنے کی تگ و دو میں ہے چونکہ چین کو بلوچستان میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود چین اپنے منصوبے سے پیچھے نہیں ہٹا ہے، جو اس بات کا غماز ہے کہ یہ پروجیکٹ چین کیلئے کتنی اہمیت کا حامل ہے یا بلوچستان چین کیلئے کتنا اہمیت رکھتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ریاست اپنے لوگوں کی قتل کو برداشت نہیں کر سکتا جب تک اُس کو کوئی بڑا مقصد حاصل کرنا نہیں ہوتا ہے چونکہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تین بڑے فدائی حملوں کے باوجود بھی چین کے سوچ میں کوئی فرق نہیں دیکھا گیا یا چین کے منصوبے کی بندش کا فیصلہ نہیں کیا گیا، اس کا مطلب یہی ہے کہ چین کسی بھی طرح یہاں اپنے قدم رکھنا چاہتا ہے، اس لیئے چین جیسے قابض کو اپنی طاقت کا احساس دلانا بہت ضروری تھا۔ ہمیں کسی بھی طرح چین کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان بلوچستان میں چینیوں کو حفاظت نہیں دے سکتا، خاص کر بلوچستان میں چینیوں کی حفاظت کسی بھی طرح پاکستان کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ بلوچستان بلوچوں کا ہے، جو بلوچستان کی آزادی کیلئے قابض پاکستان سے لڑ رہے ہیں۔ گوادر حملہ ایک طرف چین کو یہ ایک واضح پیغام ہوگا کہ بلوچ سرمچار کہیں اور کسی بھی جگہ چین کو نشانہ بنا سکتے ہیں کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستانی میڈیا یہ پروپیگنڈہ کرتا رہا ہے کہ بلوچستان خاص کر گوادر سرمایہ کاری کرنے کیلئے پرامن جگہ ہے اور یہاں چینی محفوظ ہیں لیکن اس حملے کے بعد چین کو یہ بلکل احساس ہوجاتا ہے کہ بلوچستان بلوچ سرمچاروں کا ٹھکانہ ہے اور بلوچستان میں کوئی بھی سرمایہ کاری کوئی بھی منصوبہ، کوئی بھی پروجیکٹ بلوچ قوم یعنی بلوچ سرمچار، بلوچ قوم دوست اور بلوچ تحریک کے جہد کاروں کی منشاء و مرضی کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔

چین کو یہ باور کرانا بہت ہی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ چین پاکستان جیسا کنگال یا چھوٹی ریاست یا طاقت نہیں ہے بلکہ چین ایک بڑا سامراجی ریاست ہے اور موجودہ وقت میں چین دنیا کے سپر پاور طاقتوں میں شمار ہوتا ہے، مطلب بلوچ ایک چھوٹی قوم ہے چین کے نسبت اور اس کے ساتھ ساتھ ہم پہلے سے ایک مہذب جنگ کے اصول سے عاری، انسانی حقوق کے دشمن، انسانیت کے دشمن، مذہبی جنونی ہمسایہ ملکوں کیلئے ایک ناسور، عالمی دہشتگرد ریاست سے نبردآزما ہیں۔ جس نے پہلے سے ہی بلوچستان کو ایک فوجی قلعے میں تبدیل کیا ہوا ہے، اب ان حالات میں ہمیں ہر حال میں چین کا راستہ پہلے سے ہی روکنا ہوگا اس کیلئے چاہے ہمیں کسی بھی طرح کی قربانی دینی پڑے۔ چین کو یہ باور کرانا بہت ہی معنی رکھتا ہے کہ سی پیک کو بلوچ کی مرضی و منشا کے مکمل نہیں کیا جا سکتا اور بلوچ کی مرضی و منشا ایک آزاد بلوچستان کے بعد ہی اس میں شامل ہو سکتا ہے۔

یہ بڑا اور کامیاب حملہ ضرور چین کو اپنے منصوبے کے فیصلے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرے گا کیونکہ گوادر بلوچستان کے سب سے زیادہ سیکورٹی والا شہر ہے، جو سی پیک کا مرکز بھی ہے، یہاں بلوچ سرمچاروں کو بندوق، راکٹ لانچرز اور دوسرے بڑے چھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ آنا اور ایک ایسے ہوٹل کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہونا جہاں چینی سمیت دوسرے عالمی سرمایہ کار موجود ہوتے ہیں، مطلب پاکستان چین اور اس کے منصوبے کو سیکورٹی دینے میں ٹوٹل فیل ہو چکا ہے۔ دالبندین بعدازاں کراچی، اب گوادر میں سرمچاروں کے کامیاب حملے اس بعد کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی فوج، سی پیک، چینی سرمایہ کاروں سمیت بلوچ سرمچاروں سے کسی کو بھی سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتا بلکہ بلوچ سرمچاروں کی قہر، جنگی کارروائیوں اور حملوں سے پاکستان کی اپنی فوج ہی محفوظ نہیں۔ بلوچ مزاحمت کار تنظیموں کے سامنے پاکستان کے قابض فوج بےبس دیکھائی دیتی ہیں۔ کل ہی ہرنائی میں سات فوجی اور کیچ میں مختلف حملوں کا سامنا کر چکا ہے، حالیہ دنوں میں ہی بلوچ راجی آجوئی سنگر کی جانب سے ایک کامیاب حملے میں قابض پاکستانی فوج کے چودہ اہلکار ہلاک ہوئے تھے، جس میں پاک فضائیہ کے گیارہ اہلکار شامل تھے۔ پاکستانی فوج خود ہی بلوچ مزاحمت کاروں سے محفوظ نہیں تو وہ چینیوں کو کس طرح حفاظت دے سکتا ہے۔ یہ حملہ چین کو ایک واضح پیغام دے گا کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری ممکن نہیں ہے، اس لیئے گوادر حملہ چینی تھنک ٹینک، سرمایہ کاروں، ایجنسی اور وہاں کے حکومت کو یہ باور کرائے گا کہ ان کا سرمایہ غلط مقام پر ہے، جہاں وہ کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں اس حملے کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے جس کو بخوبی حاصل کیا گیا ہے، پاکستان نے چین کو ہمیشہ جھوٹا دلاسہ دیا ہے کہ سی پیک کی حفاظت کی جائے گی لیکن یہ حملہ پاکستان کے دعووں کو غلط ثابت کرے گا، جو میں سمجھتا ہوں سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس کے ساتھ دوسری کامیابی دنیا سمیت اُن ممالک کو جو سی پیک سے ناخوش ہیں بلکہ جو سمجھتے ہیں کہ سی پیک اُن کے مفادات کیلئے ایک خطرہ ہے، جو سمجھتے ہیں کہ چین یہاں آکر اُن کیلئے مسئلہ پیدا کرے گا، جو چین کی گوادر آمد پر پریشان ہیں، ان کیلئے ایک پیغام ہے۔

امریکہ سمیت کچھ ایسے ممالک ہیں جن کیلئے سی پیک ایک سردرد ہے اور وہ اس کو کامیابی سے روکنے پر سوچ و بچار کر رہے ہونگے، اُن کیلئے یہ حملہ بڑے اہمیت رکھتا ہوگا اور ہمارا مفاد یہ ہے کہ دنیا اس بات کو سمجھیں کہ بلوچستان بلوچ سرمچاروں کے ہاتھوں میں ہے تاکہ دنیا بلوچستان مسئلہ پر سوچ و بچار کرے چونکہ موجودہ وقت میں انسانیت کے بنیاد پر تو کوئی بھی ریاست مدد نہیں کرتا بلکہ موجودہ وقت میں صرف مفادات ہی اہمیت رکھتے ہیں اور بلوچوں کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ دنیا کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ بلوچستان اُن کا ہے اور وہاں اُن کی مرضی کے بغیر کوئی بھی سرمایہ کاری پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس حملے سے ضرور اُن ریاستوں کو یہ پیغام پہنچے گا کہ بلوچ ایک طاقت ہے اگر بلوچ کو سپورٹ کیا جائے تو اُن کے مفادات بھی پورے ہونگے کیونکہ اُن کیلئے سی پیک کی ناکامی اُن کے مفاد میں ہے اور یہ صرف بلوچ کی مدد و کمک سے ہی ناکام ہو سکتا ہے بصورت دیگر ایسا کوئی طاقت نہیں ہوگا جو چین اور پاکستان کو سی پیک بنانے سے روک سکے۔

اس لیئے اس حملے کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بلوچ کی طاقت کا اندازہ اُن کو بھی ہوگا، اس سے پہلے کراچی میں جو حملہ ہوا تھا جس سے بلوچ کی طاقت کا مظاہرہ ہوا اور آج کا حملہ بلوچ کی بھرپور طاقت کا اندازہ ہے۔ اس سے بلوچ کو یہ فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ وہ ریاستیں بلوچ تحریک کے اسٹیک ہولڈرز سے دونوں کے مفادات کو خاطر میں رکھ کر کوئی منصوبہ تیار کر سکتے ہیں کیونکہ موجودہ وقت میں ہمیں ہر طرح دنیا کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔

تیسرا اس حملے کا فائدہ انٹرنیشنل میڈیا میں بلوچ کی آواز کا پہنچانا ہے، ایسے ہی حملوں سے دنیا کو اس بات کا انداز ہوگا یہ احساس ہوگا کہ یہاں ایک قوم رہتی ہے جو پاکستانی قبضے میں ہے۔ جہاں کے لوگ اپنی آزادی کیلئے لڑ رہے ہیں، جس کو پاکستان نے طاقت کے بل بوتے پر چھین لیا ہے، ایسے ہی حملوں سے دنیا میں بلوچ تحریک بلوچ کی جنگ انڈر ڈسکشن میں آئے گا، یہ حملہ انٹرنیشل میڈیا کے فوکس میں آجائے گا، بلوچ کی موجودہ وقت میں سب سے ایک بڑی ضرورت بلوچ کا ڈیبیٹ و ڈسکیشن ہونا ہے، جب بلوچ تحریک ڈسکس ہوگی تب دنیا کو بھی یہ احساس ہوجائے گا کہ بلوچستان میں پاکستان کیا بربریت کر رہی ہے، یہاں بلوچوں کے ساتھ پاکستان کس طرح کا سلوک رکھتا ہے اور یہاں کیوں لوگ لڑ رہے ہیں، دنیا کو ان باتوں کا جاننا ضروری ہے۔

چوتھا اس حملے کا ایک فائدہ گوادر میں حملہ کرنے سے بلوچ فوجی طاقت اور جنگی حکمت عملی کی کامیابی ہے، گوادر میں اس طرح کے بڑے پیمانہ کا حملہ خود اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ دشمن ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ بلوچستان اب پرامن ہے، فراری سرنڈر کر رہے ہیں، بلوچستان اب سرمایہ کاری کیلئے محفوظ مقام ہے لیکن بلوچ سرمچاروں کی جانب سے گوادر جیسے ایک ہائی پروفائل سیکورٹی اور پاکستانی فوجیوں سے بھرا پڑا شہر میں فائیو اسٹار ہوٹل میں گھس کر حملہ اس بات کا غماز ہے کہ بلوچ فوج انٹیلیجنس سورسز کے ساتھ ساتھ ایک مزید جنگی طاقت رکھتا ہے اور جہاں وہ حملہ کرنا چاہتا ہے وہاں وہ آسانی سے پہنچ جاتے ہیں، اس سے بلوچ قوم دشمنوں کو بھی یہ میسج جائے گا کہ وہ کہیں پر بھی رہیں لیکن بلوچ سرمچاروں کی قہر سے وہ بچ نہیں سکتے ہیں۔

اس حملے کی ایک اور بڑی کامیابی جو میرے لیئے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ نوجوانوں کی وطن کی دفاع میں بےخوف اپنی جان کہ قربانی دینا ہے، دنیا میں سب سے عزیز چیز زندگی ہے لیکن اپنی زندگی کو اپنے قوم کیلئے قربان کرنا ایک بڑا فیصلہ اور قوم کیلئے اعزاز کی بات ہے یہاں سب سے اہم نکتوں میں ایک نکتہ قوم کو یہ پیغام ہے کہ دھرتی کے عظیم سپوت منزل کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، ان کی قربانی قوم اور سرمچاروں کا ایک مضبوط رشتہ بنانے میں کامیاب ہوتا ہے، کچھ دلال ہمیشہ سے یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ بلوچ سرمچار اپنے مفادات کی خاطر لڑ رہے ہیں، ان کے اپنے مفادات ہیں اس لیے اُنہوں نے بندوق اٹھایا ہے لیکن اس طرح کے فدائی حملے قوم کو یہ واضح پیغام دیتے ہیں کہ بلوچ سرمچار جنہوں نے دھرتی ماں کی آزادی کیلئے بندوق اٹھایا ہے جن کا خالص مقصد قوم، وطن اور دھرتی ماں کی آجوئی ہے۔ وہ وطن کی آزادی کی خاطر بخوشی قربان ہونے کو تیار ہیں۔ سرمچاروں کا جذبہ قربانی دیکھ کر قوم ضرور یہ سوچے گا کہ بلوچ نوجوان کیوں اس طرح کے خطرناک فیصلے لے رہے ہیں، کیوں اپنی جانوں کا نذرانہ بخوشی ہمارے لیئے، ہمارے مستقبل کیلئے دے رہے ہیں، ان جیسے قربانیوں سے قوم کو اس بات کا احساس ہوگا اور ریاستی دلالوں کا یہ پروپیگنڈہ بھی دم توڑ دے گا بلوچ سرمچار اپنے مفادات کی خاطر لڑ رہے ہیں۔

حرف آخر
بلوچ نوجوانوں کو اپنی عیش و عشرت کی زندگی ترک کرتے ہوئے وطن کی دفاع میں سرمچاروں کی ہمگامی کرنی ہوگی، بلوچ نوجوانوں سمیت بزرگوں کو بھی کاروانِ آزادی میں شامل ہوکر دشمن کے خلاف لڑنا ہوگا کیونکہ اب بات بس پاکستان سے آزادی کی ہی نہیں بلکہ ہمارے بلوچ قوم کی شناخت پر آپہنچا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہمیں دشمن سے کسی بھی صورت لڑنا ہے، چین سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں اور قابض پاکستان کو یہ باور کرانا ہے کہ بلوچ ایک زندہ قوم ہے اور وہ کسی بھی طرح اپنی آزادی کو جانے نہیں دے گا، قابض پاکستان اور چین و دیگر عالمی طاقتوں کیلئے بہتر یہی ہے کہ بلوچستان سے وہ نکل جائیں کیونکہ بلوچستان بلوچوں کا ہے اور اس دھرتی کی خاطر بلوچ کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔