بلوچستان میں منصوبے کے تحت خواتین کو تعلیمی اداروں سے دور رکھا جارہا ہے – بی ایس او آزاد

148

مستونگ گرلز اسکولوں میں رونماء ہونے والے واقعات مذہبی شدت پسندی کا شاخسانہ ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے مستونگ کے گرلز اسکولوں میں رونماء ہونے والے واقعات پر گہرے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خواتین کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کی سازش کی جارہی ہیں کیونکہ اس سے قبل بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں خواتین پر تیزاب پاشی اور حملوں کے واقعات متعدد دفعہ رونماء ہوچکے ہیں۔

مستونگ میں گذشتہ دس دنوں کے دوران تین مختلف گرلز اسکولوں میں پر اسرار کیمیکل اسپرے کی وجہ سے چار سو سے زائد طالبات متاثر ہوئی ہیں جس کی وجہ سے بچیوں کے والدین سخت ذہنی دباؤ اور خوف کی وجہ سے بچیوں کو اسکول بیجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اس سے قبل بھی مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے تعلیمی اداروں میں دھمکی آمیز پمفلٹنگ کے ذریعے خواتین اور بچیوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کی کوششیں کی گئی جبکہ انتظامیہ کو بھی ڈرایا اور دھمکایا گیا۔

جون دو ہزار تیرہ کو سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں طالبات کی بس پر دھماکہ کیا گیا جس سے متعدد طالبات ہلاک ہوئی جبکہ دو ہزار چودہ کو پنجگور کے تعلیمی اداروں میں پمفلٹ تقسیم کیئے گئے، دو مہینے قبل مستونگ میں بھی پمفلٹنگ کے ذریعے لڑکیوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کے لئے دھمکی آمیز جملوں کا استعمال کیا گیا لیکن ریاست کی جانب سے اس مسلئے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہیں کہ بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی کو پروان چڑھانے میں ریاست براہ راست ملوث ہیں۔

مذہبی شدت پسندی کو پروان چڑھا کر ریاست اپنے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کے لئے طالبات کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہو کر بلوچ سماج کو قدامت پسندی اور تقلید پرستی کی جانب لے جارہی ہیں۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں بلوچ عوام کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ریاست شروع دن سے مذہبی شدت پسندی کو پروان چڑھا کر ہماری ترقی پسندانہ سوچ، قومی تاریخ اور قومی تہذیب کو متاثر کررہی ہیں لہٰذا بحیثیت قوم ہمیں ریاست کے سازش کو سمجھ کر اس کے خلاف شعوری جدوجہد کرنا ہوگا۔