بنتِ حوا – جویریہ بلوچ

1138

بنتِ حوا

تحریر: جویریہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اسلام نے عورت کو بلندی کا درجہ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ عورت کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو کہ کسی مرد کو حاصل ہیں۔ اگر ہم تاریخ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہیکہ عورت کو پاؤں کی جوتی کی سی بھی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ عورت کو ایک عظیم گناہ یہاں تک کہ نحوست سمجھا جاتا تھا۔ لڑکی کا پیدا ہونا کسی کبیرہ گناہ سے کم نہیں تھا۔ جسکی وجہ سے اسے زندہ درگور کیا جاتا۔ لیکن اسلام نے اس عقیدے کو ختم کرکے عورت کو عزت کا مقام دیا۔ اسے اسکے حقوق فراہم کیئے جو کہ اس سے قبل دوسرے مذاہب نے اسے فراہم نہیں کیئے تھے۔ زندگی کے ہر شعبے میں عورت کا مرد کے شانہ بشانہ کھڑے ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ بھی زندگی کے کسی دوڑ میں پیچھے نہیں۔

تاریخ سے عورت کے جہد کا پتہ چلتا ہے، ہر قدم پر ثابت قدم رہنے انکی جدوجہد، ہمت اور بہادری کی وجہ سے تاریخ آج بھی انکے نام زندہ رکھتے ہوئے انھیں یاد کرتا ہے۔ کیونکہ عورت کے جہد کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور معاشرے کی ترقی میں مرد و عورت کا یکساں جہد بہت ضروری ہے، تب ہی کوئی معاشرہ ترقی کر پاتا ہے۔ محض دو میٹھے بول ادا کرنے سے عورت کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی بلکہ عورت کی حوصلہ افزائی اس وقت ممکن ہے جب اسے زندہ رہنے کیلئے اسکے تمام تر حقوق کی ادائیگی ہو، اس سے بڑھ کر اسکی تعلیم ہے، تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے انسان کے اندر شعور پیدا ہوتا ہے۔ عورت کی تعلیم محض اس تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ وہ سات نسلوں تک اسکی محافظ ہوتی ہے۔

تاریخ عورت کی جہد اور بہادری کو سراہ کر اسے اولین درجے کا حقدار بناتی ہے۔ چاردیواری کے قربانی سے ہٹ کر انقلابی و جنگی تحریکوں میں بھی عورتوں کے جہد کے بڑے بڑے کارنامے ملتے ہیں۔شہادت کا درجہ اپنے نام کرنے والے بھی عورتیں ہیں، جنہوں نے بہادری کا ثبوت دے کر اسے اپنے نام کر لیا، یوں بڑے سے بڑے ظالم و یزید کا منہ توڑ جواب دینے والی بھی عورت ہی تھی۔

زندگی کے ہر میدان میں عورتوں نے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیئے، جن میں لیلیٰ خالد، جمیلہ الجزائری وغیرہ شامل ہیں جو کہ دنیا کیلئے مثال ثابت ہوئے جنکی جہد کو تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور انکے اس جذبے اور جہد سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت مظلوم نہیں بلکہ اسے مظلوم اور کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے ہمت کو پست کیا جاتا ہے، عورت کی آواز کو ہمیشہ دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عورت ہی ہوتی ہے جو ہر رشتے میں خود کو وفاداری اور ایثار کا مرکز سمجھتی ہے۔سینے میں ہزاروں زخم لیئے آگے بڑھتی جاتی ہے، اسی طرح اگر عورت کے جہد کی بات کی جائے تو بلوچستان کے اس خوبصورت سر زمین نے بھی ایسی بہت سی بہادر بیٹیاں پیدا کی ہیں، انہوں نے بھی زندگی کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا اور اپنی بہادری کا ثبوت پیش کیا۔ جن کی دختر بلوچستان زرینہ مری جو کہ اب تک اس سرزمین کی خاطر زندانوں میں وطن کی جنگ لڑرہی ہے۔ اسکے علاوہ کریمہ بلوچ، فرزانہ مجید، سیما بلوچ جیسے بلوچستان کے بہادر بیٹیاں بلوچستان میں ہونے والی بربریت اور ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھائے نظر آتی ہیں۔

کیوں روند ڈالتے ہیں بے جا بنتِ حوا کو۔
تماشہ بنی پھرتی ہے آدم کے فرزندوں سے۔
کبھی ساحل پہ بیٹھے خاموش جگنو کی طرح۔
تو ایسے ہی مضبوط جیسے سمندر کی چٹان۔
مگر ان ہوائوں کے شور سے دب نہ سکے گی۔
یہ گونج جو اٹھی ہے صدیوں کی خاموشی سے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔