تربت : خفیہ ادارے کی دفتر میں اجلاس ، بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کا فیصلہ

234

تربت میں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کےلئے خفیہ ادارے کے دفتر میں اجلاس ، اجلاس میں سول و ملٹری حکام کے علاوہ علاقائی ڈیتھ اسکواڈ کے نمائندہ کی بھی شرکت ۔

دی بلوچستان پوسٹ کو مصدقہ زرائع سے ملنے والی اطلاعات کے تربت اور بالخصوص مکران میں مزاحمتی کارروائیوں میں  ایک بار پھر  تیزی کے بعد تربت سمیت نواحی علاقوں میں وسیع پیمانے پر ٹارگٹڈ آپریشن  کا فیصلہ کرلیا ۔

واضح رہے کہ ایک اہم اور مشترکہ اجلاس میں مقامی پرائیوٹ ڈیتھ اسکواڈ کو شبہ کی بنیاد پر قتل کرنےکی کھلی اجازت دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا جبکہ سرچنگ آپریشن میں بعض اور ضروری مقامات پر پولیس اور لیویز کے علاوہ لیڈی اہلکاروں کو ساتھ لیجانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز تربت شہر می ایف سی اہلکار  کو قتل کرنے اور جا بجا سیکیورٹی وچوکیوں کے باوجود اہلکار کا اسلحہ لیجانے کے بعد فورسز میں خوف اور سراسیمگی پھیل گئی ہے ۔

 گذشتہ روز ایک خفیہ ادارے کے آفس میں اہم اجلاس  میں مقامی پرائیوٹ ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ عام شہری مخبروں اور سول انتظامیہ کے چند افیسروں نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں پرائیوٹ اسکواڈ کو نئی مسلح کارروائیوں کی لہر کے خلاف قوت استعمال کرنے کی کھلی چوٹ دے کر صرف شبہ کی بنیاد پر قتل کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی جبکہ اس نئے مزاحمتی لہر سے شدید خائف فوجی اور انٹیلی جنس حکام نے تربت شہر سمیت مختلف علاقوں میں ٹارگٹڈ اور سرچ آپریشن کا احکامات بھی دیئے۔

ایک سول انتظامی آفیسر کے مطابق سول انتظامیہ کے آفیسران آپریشن میں پرائیوٹ ڈیتھ اسکواڈ کی شمولیت اور اسے شبہ کی بنیاد پر قتل کرنے کے حامی نہیں البتہ ڈپٹی کمشنر کیچ میجر بشیر احمد نے اس کی حمایت کی۔

سول افیسران کے اعتراض کے باعث سرچ آپریشن اور گھروں میں تلاشی کے دوران کچھ علاقوں میں پولیس اور لیویز کے ساتھ لیڈی اہلکاروں کو ساتھ لیجانے کا فیصلہ کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق تربت میں عنقریب ایک بڑے پیمانےکی آپریشن اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جس کا بنیادی مقصد مزاحمتی سرگرمیوں کو ختم کر کے علاقے کو فوجی کنٹرول میں لینا ہے کیوںکہ فوج اور خفیہ اداروں کا خیال تھا کہ یہاں پہ آزادی پسند تنظیموں اور ان کے حامیوں کا خاتمہ ہو گیا ہے لیکن تربت شہر میں ایف سی اہلکار کے قتل کے علاوہ تمپ اور مند میں رواں مہینے دو واقعات میں سرکاری حکام کے دعووں کے مطابق 8 اہلکاروں کی ہلاکت اور رواں ہفتے پیدارک میں ایک بڑے جھڑپ اور متعدد فوجیوں کی ہلاکت کے بعد یہ خیال دم توڈ گیا ہے کہ مزاحمتی قوتیں ختم یا انہیں سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔