مثبت توڑ پھوڑ – شیہک بلوچ

206

مثبت توڑ پھوڑ

شیہک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی ارتقائی عمل میں تاریخ کا پہیہ صراط مستقیم کے بجائے پرپیچ گھومتا ہے اور اس گنجلک سفر میں جدت اور کہنہ کی کشمکش جاری رہتی ہے۔ مارکسزم کے انسانی تاریخ کی مادی تشریح میں انسانی تاریخ کو کشمکش کی تاریخ کہا گیا ہے۔ تضادات انسانی تاریخ کو آگے بڑھانے میں محرک کا کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخی تسلسل میں positive destruction بھی نہایت اہمیت کا حامل موضوع رہا ہے، جہاں توڑ پھوڑ نے بہتری کے لیئے راہ ہموار کی اور تاریخی سفر کو آگے بڑھایا۔ زوال پذیر معاشرے جامد ہوتے ہیں، ان میں “اسٹیٹس کو” کو برقرار رکھنے کی انتہائی کوشش کی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب ترقی یافتہ معاشروں میں “اسٹیٹس کو” کے لیئے کوئی جگہ نہیں ہوتی کیونکہ اجارہ داری آگے بڑھنے نہیں دیتی اور آگے بڑھنے کے لیئے اجارہ داری کی بیخ کنی لازمی ہے۔ لیکن ترقی یافتہ معاشرے بھی کبھی اجارہ داری کا شکار تھے۔

یورپ پر چرچ کے اجارہ داری کو آج عہد سیاہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے،عظیم رومی سلطنت کے لیئے والٹیئر نے یہاں تک کہا تھا کہ “یہ نہ تو عظیم ہے، نہ رومی ہے، نہ سلطنت ہے۔” یعنی یہ کہ وہ اجارہ داری کے خاتمے کے بعد ایک روشنی تک پہنچے لیکن انہوں نے سیاسی طور پر اس حد تک ترقی کرلی کہ مذہب یا دیگر تواہم کی ان کے معاشروں میں اجارہ داری کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ ان کے فیصلے ادارے کرتے ہیں، جن میں بیٹھے افراد از خود بہترین تعلیمی اداروں کی پیداوار ہیں۔ مثبت توڑ پھوڑ لازمی ہے، وگرنہ سیاسی عمل رک جاتا ہے اور منفی نتائج برآمد ہونے لگتے ہیں کیونکہ جامد رہنا غیر فطری ہے اور جب تک زندگی ہے اس میں تبدیلی کے لیے ہر لمحہ گنجائش ہے، جب کوئی سماج فطرت سے دور ہوکر ایک مافوق الفطرت تصور کے ماتحت زندگی گذارنا شروع کردیتا ہے، تب وہ نفسیاتی بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے کیونکہ فطرت سے دوری ایک بہت بڑی بیماری ہے،ایک فردی نجات دہندے کا تصور خالص عقائد کا فراہم کردہ ہے بعد میں اسے سامراجی و نوآبادیاتی پالیسیوں کے تحت دیسی باشندوں پر مسلط کیا گیا تاکہ اجارہ داری کو قائم رکھا جائے، طاقت کو قائم رکھنے کے لیے اجارہ داری کو قائم رکھنا ضروری ہے، اس لیئے ایک فرد جب ایک سماج کا نمائندہ ہوگا تو اس کے ذریعے سماج کو کنٹرول میں رکھنا زیادہ آسان ہوگا اور یوں سردار کے ذریعے قبیلے کو کنٹرول کیا گیا اور اس عہدے کو سنڈیمن نے باقاعدہ طور پر نمائندگی کے لیئے وراثتی کردیا تاکہ نمائندگی کو نسلی بنیادوں پر قائم رکھا جاسکے اور یوں پوزیٹو ڈسٹرکشن کی رہی سہی کسر بند کردی گئی۔

سردار کے ہاتھوں قبیلہ کھلونا بن گیا، جب سردار خوش تو تابعداری، جب سردار کے مفادات کے خلاف کچھ گیا تب سردار نے بغاوت کی لیکن جب سردار مان گیا تو سب پہاڑوں سے اتر جاؤ ایک نیم قبائلی نیم جاگیرداری سماج میں سیاسی اداروں کی راہ میں سردار سب سے بڑا رکاوٹ بن گیا اور یوں اقتصادی طور پر بھی عام افراد مزید پستے چلے گئے اور انفرادی صلاحیتوں کے لیئے کوئی خاص جگہ نہیں رہی۔ ذرا تصور کیجیئے اگر اسٹیفن ہاکنگ بلوچستان میں ہوتا تو کیا آج وہ “وقت کی مختصر تاریخ” جیسی کتاب لکھ پاتا؟ یہ ادارے تھے جنہوں نے اسٹیفن ہاکنگ کی جسمانی معذوری کو اس کے تخلیقی صلاحیتوں کے سامنے رکاوٹ بننے نہیں دیا۔ ہم آج تک اسی روایتی سوچ، قبائلی ذہنیت و شخصیت پرستی سے نہیں نکل سکے کیونکہ ہماری تربیت سیاسی اداروں کی بجائے روایتی انداز میں کی گئی اور نوآبادیاتی سانچے میں ہم کو ڈھالا گیا اس لیے ہم تاریخی عمل سے بہت دور نکل آئے۔

2000 میں بلوچ تحریک کا اٹھنا تبدیلی کی ایک نئی لہر تھی، جس نے بلوچ میں نیشنلزم کا احساس پیدا کیا اور دقیانوسی قبائلیت و شخصیت پرستی سے نکل کر قوم اور قومی سیاسی اداروں کا شعور دیا لیکن اس پر عملدرآمد اس طرح سے نہیں کیا جاسکا کیونکہ ابتدائی مراحل میں ان کرداروں کی نوعیت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا، حمید شاہین جیسے باشعور انقلابی جنہوں نے ابتدائی مرحلے میں اس بات پر زور دیا کہ ان قبائلی رہنماؤں کے کردار کی نشاندہی ہونی چاہیئے تاکہ کل یہ تنظیم کاری کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں لیکن ان کی باتوں کو طبقاتی شعور کے کھاتے میں ڈال کر نظرانداز کردیا گیا لیکن آج جب تنظیم کاری کو لے کر یہی رکاوٹیں سامنے آرہی ہیں، تو حمید شاہین کی باتیں واضح ہورہی ہیں کہ اشرافیہ کے کردار کا تعین ابتدائی مرحلے میں لازمی ٹہرتا ہے۔ اس جانب ایک اور اشارہ بابا مری نے بھی کیا تھا کہ “یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ کل کو ہم چھوٹے موٹے فرعون تو نہیں بن جاتے۔” یعنی ان کرداروں کا تعین لازمی تھا خیر جو ہم نے نہیں کیا، وہ آج ہم سے تاریخ کروا رہی ہے لیکن اس کے بغیر کوئی اور راستہ نہیں۔

آج تحریک کو اداروں کی بنیاد فراہم کرنے کے لیئے جو positive destruction ہوئی ہے اسے تسلیم کرتے ہوئے اب آگے بڑھنا ہوگا لیکن قبائلی رہنماؤں کے کردار کا تعین بھی لازمی ہے جو آج رکاوٹ بن چکے ہیں اور اگر وہ اس تاریخی عمل کو سمجھتے ہوئے اپنی محدود اجارہ داری سے دستبردار نہیں ہوتے تو آنے والے وقت میں تاریخی عمل انہیں تحریک بابت بے رحمی سے irrelevant قرار دیگی اور وہ کسی صورت اس تاریخی عمل کو روک نہیں سکتے، اگر وہ رکنا چاہینگے بھی تو تاریخی طور پر ایک جرم ہوگا کیونکہ کاروباری بن کر چند وقتی مفادات حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن ایک قومی منزل نہیں اس کے لیئے قومی اداروں کی ضرورت ہوتی ہے، جو انسانی وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں اور فردی اجارہ داری کی نفی کرتے ہیں۔