فوج اورنیشنل پارٹی کے ڈیتھ اسکواڈز نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے ۔ بی این ایم

215

ریاستی افواج ،کٹھ پتلی وزیر اعلی اورنیشنل پارٹی کے ڈیتھ اسکواڈز نے بلوچستان میں عوام کا جینا محال کر دیا ہے ۔ بی این ایم

بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی فورسز کے جاری کارروئیوں میں خضدار میں کئی دنوں سے آپریشن کے نام پربدترین ریاستی دہشت گردی جاری ہے ۔اس قابل مذمت عمل میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ بلوچستان میں جاری حالیہ فوجی آپریشنز میں تیزی،آبادیوں پر فوجی یلغار تاریخ کی بدترین نہج پر پہنچ چکے ہیں۔فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہوجانے والے بلوچوں کی تعداد میں ہوش رُبا اضافہ ہورہاہے ۔شہادتیں روز کا معمول بن چکی ہیں ۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ ریاستی افواج ،کٹھ پتلی وزیر اعلی ثناء اللہ زہری اورنیشنل پارٹی کے ڈیتھ اسکواڈز نے جہاں بلوچستان بھر میں عوام کا جینا محال کر دیا ہے وہیں کئی روز سے خضدار میں فوجی آپریشن کی وجہ سے عوام شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔اس وقت خضدار کے علاقوں کوشک، اسد آباد، یونیورسٹی و اسکے گرد نواح کے علاقوں سمیت چاندنی چوک،چمروک ہوٹل،ٖظفر آباد،فیروز آباد،بولان کالونی،گزگی،زیرینہ کھٹان،بالینہ کھٹان اور کنڈبورکے داخلی و خارجی راستے مکمل بند کرکے چیکنگ کے نام پر خواتین و بچوں کو حراساں کیا جا رہا ہے۔گھر گھر تلاشی میں لوگوں کی قیمتی اشیاء کولوٹنے کے ساتھ خواتین و بچوں کی تذلیل کرکے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ گزشتہ شب خضدار کے علاقے بالینہ کٹان میں فورسز نے شہید سمیع بلوچ کے گھر پر دھاوا بول کر انکے بھائی کو ایک اور نوجوان کے ساتھ حراست میں لے کر لاپتہ کر دیا۔شہید سمیع کے بھائی کو تشدد کے بعد آج رہا کر دیا گیا مگر انکے ساتھ حراست میں لیے جانے والا نوجوان تاحال فوجی حراست میں ہے۔گھر گھر سرچ آپریشن کی وجہ سے خضدار کے مکین آمد ورفت ،روزانہ کی ضروریات زندگی کی اشیاء کے لیے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ کئی روز قبل خضدار میں کرکٹ گراؤنڈ سے دوران کھیل جن کھلاڑیوں کو حراست میں لیا گیا تھا اس میں تین کرکٹر ممتاز بلوچ،سجاد بلوچ اور غازی جتک نامی نوجوان تاحال فوجی حراست میں ہیں اور انکی خیریت کی کوئی خبر نہیں۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ آئے روز کٹھ پتلی حکومت کی جانب سے میڈیا میں بلوچستان آپریشنز سمیت بلوچ نسل کشی کے اعتراف اور سرزمین بلوچستان پر جاری انکی جنگی جرائم پر ریاستی کٹھ پتلی میڈیا کی خاموشی ایک سنگین جرم ہے۔ آزادی صحافت کے دعویدار بلوچستان کا رخ کریں تاکہ سنگین بحرا ن سے دوچار بلوچ عوام کی آوازکو مہذب دنیا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے لانا ممکن بنایا جاسکے ۔ بلوچ قوم بین الاقوامی اداروں سمیت عالمی نشریاتی اداروں سے یہ امید رکھتا ہے کہ عالمی ادارے پاکستان کے سامنے یہ سوال رکھیں گے کہ بلوچستان میں اگر پاکستان کے ہاتھ صاف ہیں تو بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو کیوں رسائی نہیں دی جاتی ہے ؟

مرکزی ترجمان نے کہا کہ ہم عالمی میڈیا و انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مقبوضہ بلوچستان میں جاری پاکستانی جنگی جرائم کا نوٹس لے کر بلوچستان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اقدام اُٹھائیں بصورت دیگر عالمی اداروں کی خاموشی سے یہاں انسانی المیہ روز بہ روز سنگین تر ہوجائے گا ۔