میڈیا کا دوغلا رویہ :تحریر ؛ جیئند بلوچ

261

بلوچستان میں میڈیا کی یکطرفہ پالیسی اور سرکاری بیانیے کو لے کر حالات کی منفی منظر کشی یا حقائق کو چھپانے سے متعلق معروف مزاحمتی تنظیم بی ایل اے نے بالاخر بی ایل ایف کے اس بیان کی تائید کردی ہے جس میں میڈیا کو بیس دن کا الٹی میٹم دے کر اپنا رویہ درست کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ بلوچستان میں ایک عرصے سے میڈیا نے سرکاری موقف پر تکیہ کر کے حقیقی صحافتی زمہ داریوں سے جان چھڑانے کی جو کوشش کی ہے گماں ہے کہ اب اس پر بریک لگ جائے اور ہونا بھی چاہیے کیوں کہ میڈیا کا کام کسی بھی علاقے یا خطے میں جو کسی سبب سے حساس ہو ایک موقف پر کام چلائو پالیسی کے تحت ٹہرنا خود صحافتی اصولوں کی پامالی ہے جیسا کہ اس وقت بلوچستان میں لوکل میڈیا ہو یا پاکستانی میڈیا دونوں مل کر یک طرفہ رویے کے باعث صحافتی اصولوں کا گھلا گھونٹ رہے ہیں جبکہ انٹر نیشنل میڈیا جو قدرے غیر جانبدار ہوسکتی ہے ان کے لیئے بلوچستان شجر ممنوعہ ہے۔چونکہ انٹر نیشنل میڈیا کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ بلوچستان بالخصوص پاکستانی ملٹری کے نکتہ نظر سے حساس معاملات جیساکہ فوجی آپریشن، مسخ لاشیں، اغواء اور اب بلوچ کش سی پیک پر حقیقی رپورٹنگ کرے تو زیر نظر تحریر میں بھی ہم لوکل یا پاکستانی میڈیا کے کردار پر بحث کرنے کی کوشش کرینگے۔

اس سے قبل ایک تحریر میں میڈیا کے متعلق ہم یہ بات کہہ چکے ہیں کہ حقائق سے منہ چھپانے کی خاطر سرکاری جبر کا بہانہ تراش کر میڈیا نے خود کو بلوچستان کے معاملات میں حقیقی صحافتی کردار کی ادائیگی سے بے گانہ کررکھا ہے گوکہ سرکاری تشدد پسند پالیسیاں دیگر طبقوں کے ساتھ ساتھ میڈیا ہاؤسز اور ورکر جرنلسٹ پر یکساں ہیں جتنے صحافی بلوچستان میں گزشتہ آٹھ سے دس سالوں کے دوران سرکاری تشدد کا شکار رہے انہیں قتل کیاگیا یا اغواء کیئے گئے وہ دنیا کے تمام جنگ ذدہ خطوں کی نسبت زیادہ تعداد بنتی ہے علاوہ اس کے اخبارات کی بندش کتب و رسائل پر پابندی کے کئی واقعات بھی ہوئے ہیں نمایاں اخبارات میں روزنامہ آساپ، روزنامہ سمالان اور روزنامہ توار جیسے قومی اخبارات شامل تھے جو لگی لپٹی کے بغیر صحافتی اصولوں پر کار فرما کام کرنے کی حتی الامکان کوشش کررہے تھے انہیں بزور بند کردیاگیا اسی طرح بلوچی کتابوں کی اشاعت و فروخت بالجبر روکنے اور کتابوں کی دکانیں سیل کرنے کے واقعات سامنے کی باتیں ہیں مگر کیا واقعی میڈیا اس حد تک زیر دست ہے کہ وہ سرکاری موقف پر مکمل تکیہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں دیکھتا یا یہ محض خام خیال ہے۔

اس پر بحث کی جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں بیشتر پریس کلب اور ان کے زیادہ تر صحافی سرکاری اداروں کے ساتھ براہ راست تعلق داری یا بالواسطہ قربت رکھتے ہیں اس لیئے کسی علاقہ میں کوئی فوجی آپریشن ہورہی ہو یا مسخ لاشیں برامد ہوں ایسے صحافی سرکاری موقف کے بعد دوسری جانب کسی واقعہ کے متعلق معمولی پوچھ گچھ کی کوشش تک نہیں کرتے گوکہ صحافتی اداروں میں اب سرکاری صحافی بھی بڑے پیمانے پر لائے گئے جو غلط رپورٹنگ کے علاوہ اپنے ساتھی صحافیوں کی مخبری کا کام بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کے بجائے ھم مقامی سطح پر لوکل میڈیا کی بات کررہے ہیں جہاں لوکل صحافیوں کی اکثریت براہ راست یا بالواسطہ ایف سی یا انٹلی جنس اداروں سے کسی بھی واقعہ پر ان کا موقف لیتی ہے مگر دوسرے فریق کا موقف جاننے کی معمولی کوشش تک نہیں کرتے بلکہ زیادہ تر صحافی اس بات پہ خوشی محسوس کرتے ہیں کہ ایف سی یا انٹلی جنس ادارے کا کوئی سپاہی یا صوبیدار ان کے ایس ایم ایس کا جواب دیتا یا فون اٹینڈ کرتا ہے۔

گوکہ صحافیوں کو آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے ان پر تشدد کے علاوہ ہمیشہ دھمکیوں اور دیگر نوعیت کے حراساں کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں مگر المیہ ہے کہ علاقائی پریس کلب اور صحافتی ادارے تمام مل کر ایف سی اور خفیہ اداروں کے سامنے کم ازکم حد تک غیر جانبدار رہ کر رپورٹنگ کا حق ادا کرنے کے لیئے ڈٹے رہنے کے بجائے (بلوچ تنظیموں کی صحافیوں کے معاملے میں کئی سالوں کی خاموشی) سرکاری جبر کے بہانے سے فائدہ اٹھا کر بلا مشروط خود کو سرکاری اداروں کے ہاں گروی رکھ چکے ہیں جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ روزانہ آپریشن، اغواء، گھروں کو جلانے کے واقعات کے باوجود اب بلوچستان سے نکلنے والے کسی بھی اخبار میں ڈھونڈ نے بھی آپ کو ایسی کوئی خبر نہیں ملتی کسی علاقے میں اگر کوئی ایک یا دو ایسے صحافی موجود ہیں جو ریاستی جبر اور بربریت پر حقیقی رپورٹنگ کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے ساتھی رپورٹر انہیں منع کرتے ہیں کہ ایسا نہ کیا جائے خامخواہ کی مصیبت مول لینے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ دوسرا فریق خاموش ہے یا اعتراض نہیں کرتا۔

یہ عمل ثابت کرتی ہے کہ صحافی سرکاری پریشر کو محض اب ایک بہانہ کے طور پر استعمال کررہے ہیں بلوچستان کے کسی علاقے میں سیاسی کارکنوں کی لاشیں گرائی جائیں یا اغواء کے واقعات ریکارڈ ہوں تو مقامی صحافی حقائق کی جان کاری کے بجائے اس لیئے سرکاری موقف لے کر نیوز اخبارات میں چلاتے ہیں کہ دوسری جانبب مکمل خاموشی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اس پہ کوئی تنقید نہیں کرتا کہ سیاسی کارکن کی مسخ لاش پرسرکاری موقف لے کر دہشت گرد کا لیبل کیوں لگایا جاتا ہے یا کہیں ایف سی اور انٹلی جنس اداروں کی جانب سے اغواء شدہ شخص کی لاش کو نامعلوم افراد کے ساتھ نتھی کیوں کیا جاتا ہے ۔ کم از کم یہ تو کیا جاسکتا ہے کہ مقتول کے خاندان سے ان کا موقف لے کر گمشدگی کی تاریخ سرکاری موقف کے ساتھ لگائی جاسکتی ہے تاکہ دونوں جانب کا موقف برابر نا سہی مگر کسی صورت سامنے آجائے۔

اب چونکہ ایک عرصے سے میڈیا پر روک ٹوک نہیں رہا تھا اس لیئے لوکل میڈیا نے بھی اپنی روش بدل کر سرکاری موقف پر یکطرفہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ کے لیئے ریاستی جبر سمیت مختلف بہانے ڈھونڈ لیئے ۔ علاقائی سطح پرسرکاری اداروں کے قریبی رپورٹرز نے اپنے ان ساتھیوں کو بھی ڈرا کر اصل حقائق سے دور رکھنے کی کوشش کی کہ یہ کام ان کے لیئے مہنگا ثابت ہوسکتی ہے کیوں کہ وہ خود سہل پسند تھے ان کا کام رپورٹنگ میں نیشنل پارٹی، جڑواں بی این پیز، مسلم لیگ، پی پی پی اور جے یوآئی کے لیڈرشپ کا بیان چھاپ کر اگلے دن ان سے پیسہ لینا رہ گیا ہے یا صبح سے دوپہر تک سرکاری دفاتر میں گھوم پھر کر مراعات لینا ہے ایسے میں وہ اپنے ساتھی رپورٹر کو منع کرتے ہیں کہ کسی صورت فوجی بربریت ، ریاستی مظالم اور تشدد پر بطور صحافی اپنا صحافتی زمہ داری ادا نہ کرے بلکہ ان کی طرح آنکھیں بند کر کے سیاسی پارٹیوں کے بیانات و کسی بھی واقعہ پر فوجی اداروں کے پریس ریلیز پر تکیہ کر کے ان کے کام میں رکاوٹیں پیدا نہ کرے کیوں کہ اگر صرف ایک رپورٹر کسی علاقے میں اصل صحافت کرنے کی کوشش کرے تو یقینا اسے سرکاری عتاب کا سامنا کرنا پڑے گا مگر ان کے ساتھی رپورٹر کو بھی اپنے اخبارات میں اصل خبریں بھیجنا ہوگا تاکہ ان کا پرودہ پاش نہ ہو جائے کہ صرف ایک رپورٹر کو یہ تشدد کیوں کر نظر آتی ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر ہورہی ہیں۔

ان کے علاوہ بھی ایک المیہ یہ ہے کہ لوکل میڈیا اور مقامی صحافیوں نے اپنا صحافتی اصول خود ریاستی اداروں کے ہاں گروی رکھ دیا ہے کئی مقامات میں یہ رپورٹس سامنے آئی ہیں ایف سی یا انٹلی جنس اداروں نے پریس کلبز اور صحافیوں کو لیپ ٹاپ دیئے ہیں چند ایک مقامات میں ایف سی کی طرف سے صحافیوں کو موٹر سائیکل دینے کی خبریں بھی آئی ہیں ان سے اب کیا مطلب نکالا جائے جب ایک صحافی ایف سی سے موٹر سائیکل یا لیپ ٹاپ لیتا ہے بھلا وہ کیسے حقیقی صحافت کرنے کے قابل رہتا ہے شنید کے مطابق کئی پریس کلب میں صحافی آپس میں محض اس لیئے جھگڑ پڑے یا تقسیم ہوئے ہیں کہ ایف سی کے تقسیم کردہ لیپ ٹاپ کی تعداد کم اور صحافی زیادہ تھے اس لیئے ایک دو رہ گئے جب حال یہ ہو اور ایسے صحافیوں کو کہا جائے کہ حقیقی رپورٹنگ بھی کیا کریں بھلے سرکاری موقف کو لیں تو یہ بہانہ تراش لیتے ہیں کہ ان پر پابندی ہے وہ تشدد کا شکار ہیں انہیں اجازت نہیں دی جاتی۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقامی سطح کی صحافت نے بلوچ تنظیموں کی خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنے لیئے خود سے سہل پسند صحافت کا راستہ منتخب کیا ہے سرکاری جبر محض ایک فیشن یا ان کا بہانہ بن گیا ہے کیوں کہ اگر ایک پریس کلب متحد ہو کر دو طرفہ موقف سامنے لانے کی کوشش کرے اس عمل میں اپنے قریبی پریس کلب کا تعاون لے اور ہر صحافی اپنے متعلقہ ادارے سے بھی مدد لے تو ان پر اتنا گرفت یا پریشر نہیں ہوتا، جب ایک صحافی تمام صحافیوں کے درمیان اٹھ کر غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کی سعی کرے گا تو ان کی راہیں یقیناً مسدود کردی جائینگی۔

تحریر کی طوالت کے پیش نظر مختصر یہ کہ لوکل میڈیا یکطرفہ رپورٹنگ یا سیاسی و سول سرکاری اداروں کے دفاتر کی گردش کے ساتھ کم از کم انداز میں جہاں تک دسترس ہوبلوچستان کے حالات پر غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کیا کرے جہاں جہاں ایف سی کی بربریت ہورہی ہے ایسے واقعات کو سامنے لانے کی حتی الوسع کوشش کرے تو بلوچستان کا پورا نا سہی کم از کم ایک نامکمل تصویر تو سامنے آسکتی ہے جو اس وقت مکمل طور پر نظر انداز ہے جب صحافی ایف سی سے لیپ ٹاپ اور موٹر سائیکل سمیٹنے میں مصروف ہوں گے تو یقینا حقائق پیچھے رہ جاتے ہیں۔ لہذا اس تمام صورتحال میں بلوچ افواج بی ایل اے اور بی ایل ایف کا میڈیا کے حوالے سے جو نیا بیانیہ سامنے آیا ہے وہ عملی جامع پہنانے کا متقاضی ہے میڈیا کا جو بے لگام کردار سامنے آیا ہے اس پر حقیقت کے دائرے میں رہ کر تھوڑی گرفت لازمی ٹہرتا ہے ان دونوں تنظیموں کے ساتھ جو دیگر تنظیمیں بالخصوص سیاسی جماعتیں ہیں وہ بھی اس پہ لائحِ عمل طے کریں اور اسے بہتر انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ دنیا کے سامنے بلوچستان کا خونچکان چہرہ جو کئی سالوں سے فوجی بربریت کے سبب لہولہاں کردیاگیا ہے سامنے لانے کی کوششیں برآور ہوسکیں۔