شہباز اکبر خان بگٹی بلوچ سیاسی و قبائلی تاریخ میں ایک انتہائ اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کے کردار سے اختلاف رکھنے والے بھی انکے سحر انگیز، ہمہ جہت شخصیت اور بلوچ تاریخ پر اسکے قائم انمٹ نقوش کو نہیں جٹھلا سکتے۔ 26 اگست 2006 کو پاکستانی فوج کے خلاف برسرِ پیکار اکبر خان بگٹی تراتانی کے پہاڑوں میں اپنے 40 ساتھیوں سمیت شہید ہوجاتے ہیں۔ اسکے بعد بلوچ سیاست کی نئی جہتیں متعین ہوجاتی ہیں۔ گوکہ بلوچستان میں آزادی کی تحریک انکے شہادت سے پہلے بھی جاری تھا لیکن انکے شہادت کے بعد اس تحریک نے وہ ایندھن حاصل کی جو اسے تابناکی سے جلائے رکھا ہوا ہے۔

اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد 26 اگست بلوچ قوم کے لیئے ایک مقدس دن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس دن کو پوری بلوچ قوم نہایت احترام کے ساتھ یاد کرتی ہے۔ پچھلے گیارہ سالوں سے اس دن کے موقع پر بلوچستان و دنیا بھر میں پروگرامز کا انعقاد ہوتا ہے، شہروں میں اس دن کی مناسبت سے ہڑتال کی جاتی ہے۔ اس دن کو ایک تجدید عہد دن کی طرح منایا جاتا ہے

ہر سال کی طرح اس سال بھی بلوچستان سمیت دنیا بھر میں نواب اکبر خان بگٹی کا گیارہواں برسی انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئ۔ تمام بلوچ سیاسی جماعتوں نے اس بابت پریس ریلیز جاری کیئے اور خاص طور پر بلوچ ریپبلکن پارٹی جن کے سربراہ اکبر خان بگٹی کے پوتے ہیں نے اس موقع پر مختلف پروگراموں کا انعقاد کیا۔

بی ایس او آزاد نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ اگرچہ جسمانی طور پر وہ قوم سے جدا ہوگئے ہیں، لیکن ان کا کردار اور نظریہ آزادی پوری بلوچ عوام کی سوچ بن گئی ہے، جسے کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتا، البتہ مشرف سمیت ریاست کے وہ تمام نمائندے جو نواب اکبر خان کو شہید کرنے میں ملوث تھے، آج رسوا ہورہے ہیں۔

بلوچ ری پبلکن پارٹی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ شہید نواب اکبر خان بگٹی نے پیران سالی میں بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کی دفاع کی خاطر عملی جدوجہد کا بنیاد رکھا اور اپنی قیمتی جان کا نظرانہ پیش کرکے بلوچ قومی تحریک کو ایک ناقابل شکست کارواں میں بدل دیا جو نو سال بعد بھی اپنے پورے زور و شور سے منزل کی جانب رواں دواں ہے۔

سردار بختیار ڈومکی نے اپنے جاری بیان میں کہا ہے کہ شہید نواب اکبر بگٹی جیسے رہنما خوش نصیب قوموں کو صدیوں میں ایک بار ملتی ہیں جن کی بہادری، جدوجہد اور عظیم قربانیاں قوموں کی آنے والی نسلوں کی تقدیر بدل کر رکھ دیتی ہیں۔

اسکے علاوہ ٹویٹر پر بھی کئ لیڈران نے نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے حوالے سے پیغامات بھیجے۔

شہید نواب اکبر خان کے پوتے اور بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ براہمدغ بگٹی نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ میں بابائے قوم کو جھک کر سلام پیش کرتا ہوں جنھوں نے ہمیں اپنے حقوق کے لیئے لڑنا اور ثابت قدم رہنا سکھایا۔

بی این ایم کے بین القوامی ترجمان حمل حیدر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ شہید نواب اکبر خان بلوچستان کی آزادی کے لیئے جیئے اور مرے، اب ہم انکے نظریے کو بہت جلد انجام تک پہنچائیں گے۔

کینیڈا میں مقیم بی ایس او آزاد کے سابق سی سی ممبر لطیف جوہر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ گیارہ سال پہلے نواب اکبر خان کی شہادت نے میری آنکھیں کھولیں اور انھی کی قربانی کی بدولت آج میں اس تحریک کا حصہ ہوں۔

مرحوم بلوچ لیڈر نواب خیر بخش مری کے بیٹے مہران مری نے ٹویٹر پر امریکہ میں ہونے والے تقریب میں اپنی تقریر کی تحریری شکل شائع کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں آج ایک بھی ایسا گھر نہیں جو پاکستانی جھنڈا لہرائے۔

اسکے علاوہ آج بلوچستان بھر میں شٹر ڈاون ہڑتال رہا اور ٹریفک میں بھی کمی دیکھا گیا۔ مختلف بلوچ قوم پرست جماعتوں کی جانب سے تعزیتی ریفرنسز کا انعقاد کی بھی کیا گیا، جبکہ اسکولوں میں طلبا و طالبات نے قران خوانی کی۔

جرمنی میں بلوچ ری پبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کی جانب سے ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا ، جہاں شرکاء نے جھنڈے اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر مختلف نعرے درج تھے۔ شرکاء نے پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی اور شہید نواب اکبر بگٹی کے قاتل جنرل مشرف کے کھلے عام گھومنے کی سخت الفاظ میں مزمت کی۔