جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ کا کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ آج 4988 ویں روز جاری رہا۔ اس موقع پر بی ایس او سمیت دیگر طلباء تنظیموں کے رہنماؤں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں مزدور، طلباء، اساتذہ، شاعر اور خواتین کو بلوچ جدوجہد کی پاداش میں جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست بلوچ قوم کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے جبر کے تمام طریقے استعمال کررہا ہے۔ مگر آج قومی جدوجہد خوف سے کوسوں دور اپنی منزل کو چھونے والی ہے تو اس طرح کے ریاستی ہتھکنڈے بے سود ہیں ہاں البتہ ان کے مقامی آفیسر ضرور اس طرح کے جھوٹے بیانات سے اپنی پوزیشن مستحکم آسائشوں میں اضافہ کر رہے ہیں یعنی اب معصوم قوم کے فرزندوں کی لہو سے پاکستان فوج اس کے دلالوں کے بچے مزید آسائش حاصل کر رہے ہیں کہ اس طرح جھوٹے بیانات صرف اپنی شکست زدہ فوج کے حوصلوں کو بڑھانے اور اپنی ترقی کے لیے راہ ہموار کرنے کے علاوہ کوئی معنی رکھتے ۔
انہوں نے کہا کہ بولان میں گذشتہ پانچ روز سے آپریشن جاری ہے فوج سے بمباری قتل و غارت۔ جبری اغوا کرنے کے بعد انہیں سرمچار قرار دے کر کھلے عام شہید کرنے کے علاوہ کوئی اور توقع رکھی بھی نہیں جا سکتی۔
ماماقدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے جبری اغوا کرنے والے معصوم بچوں دہشتگرد قرار دیا ۔ صوبائی حکومت نے بھی نے بھی اس گنگا میں خوب ہاتھ دھوئیں۔