غیرمرئی ہاتھوں میں مرئی شئے کی تلاش
مقبول ناصر
دی بلوچستان پوسٹ
(بلوچوں کاایک درخشاں ستارہ لاپتہ طالب علم حفیظ بلوچ کے لئے)
بلوچ مسئلے کوسمجھنے اوراس کے حل کے لیئے پاکستان میں مختلف ادارے بناۓ گئے ہیں جن کے عظیم محققین اورسربراہوں کے لیئے شاندارمراعات اوربھاری تنخواہیں مختص کی گئی ہیں۔جن کے کارہاۓ نمایاں کی کتابیں وقتاًفوقتاًمہنگے کاغذوں میں چھاپے جاتے ہیں اورپانچ ستارہ ہوٹلوں میں ان کی رونمائی کے بعدان دانش کے ذخیروں کو اورحکمت وتدبرکے وظائف اعلی فوجی وسول اداروں اورلائبریریوں کوبھیجاجاتاہے۔ان دانش پاروں سے حکمت عملی ،جلداورموثرنتائج کے حامل اقدام کے فارمولے ایجادکیئے جاتے ہیں۔
بہت معذرت کے ساتھ ،لیکن اس تمہیدکوحقیقت سمجھنے کے بجاۓ اسے تضاداورتمام مسائل کی جڑتسلیم کیاجاۓ توبات کوبہترطورپررکھنے اورمثبت نتائج کے حاصل ہونےکے امکانات زیادہ قوی ہوں گے۔جن اداروں کوبطورتھنک ٹینک اورپالیسی سازی کے لیئے تشکیل دیاگیاہے۔ ان کے سربراہ ومحققین (کسی مخصوص)ڈسپلن(شعبہ علم) کے اس(متعصب) استادکی طرح ہوتے ہیں جومحض اپنے شعبہ علم سے ناواقف شخص کوقرون وسطیٰ میں زندگی گزارنے والا(جاہل)شخص سمجھتے ہیں۔لہٰذاحقائق کودیکھنے کے بعدانہیں نظریات وتجزیات کے خانوں اورمحدب عدسات سے پرکھنے کی کوشش کی جاۓ۔
بلوچستان کے رخشان ومکران کےخطوں میں (دوہزاراٹھارہ کےانتخابات کے بعد)ابھرنے والے حالیہ عسکری و مزاحمتی لہرکوسمجھنے کے لیئے بلوچستان کی فضاؤں اورزمین کوہتھیاروں اورجدیدجنگی ٹیکنالوجی کے حامل ایجادات کے پروازسے ہرگز نہیں سمجھاجاسکتا(شایدحل کی طاقت رکھنے والے اسے سمجھناہی نہیں چاہتے۔غالباً،خاکم بدہن)۔اربنائزیشن کے تیزاورسرمایہ داری کے گروہی مفادات کوبڑھانے کا مقابلہ ومسابقاتی ماحول گوریلاجنگوں کو مزیدپیچیدہ اورمزیدمہلک بناتاہے(جنگ کے اس پیچیدہ پہلوپرکافی گفتگوویتکانگ،عرب و دیگراقوام کی جدوجہدکے تاریخی حوالہ جات کےتناظر میں کی جاسکتی یے۔)۔
ٹیکنالوجی کی جدت اورعالمی اجارہ دارانہ حکمت عملی نے آج مہنگے اوراجتماعی جان لیواہتھیاروں کوآسانی سے ہرگروہ کی دسترس میں دے دیاہے۔(جن کی تازہ ترین مثالیں ہتھیاروں کی عالمی نگرانے کرنے والے مختلف اداروں نے مختلف خطوں میں جاری مسلح مزاحمتی تنظیموں سمیت نوشکی اورپنجگورمیں ایک بلوچ مسلح تنظیم کو حالیہ حملوں کے بعد شامل کیاہے،جسے ان ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہوگئی ہے۔)
وائس فاربلوچ مسنگ پرسنزاوربلوچ کونسل اسلام سمیت مختلف بلوچ دوست تنظیموں اورپارٹیوں نے الزام عائدکیاہے کہ نوشکی وپنجگورکیمپوں پرحالیہ مسلح حملوں کے بعدمختلف علاقوں میں 30سے زائدبلوچ طالب علموں کوجبری طورپرلاپتہ کردیاگیاہے جن میں خصوصی طورپر پنجگورکے طالب علم احتشام بلوچ کوقتل کرنے اوراسلام آبادمیں فزکس میں ایم فل فائنل ایئرکے طالب علم اورخضدارکے رہائشی حفیظ بلوچ کے اغواکومیڈیااورسوشل میڈیانیٹورکس پرفوری طوررپورٹ کیاگیا۔حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لئے ملک کے دارالخلافہ سمیت کوئٹہ،تربت،کراچی سمیت کئی دیگرشہروں میں اس کے ہم مکتب ودیگرسول سوسائٹی وعام عوام احتجاج کرریے ہیں۔جوصرف ومحض عدالتوں کے قیمتی تعمیرات و مہنگے فرنیچرزکو “مرئی پیداوار” (جسے مغرب میں انصاف کہاجاتاہے،جوبلوچوں کے جنریشن ملینیئم اورجنریشن زی کی پوری نسل کی طرح لاپتہ ہے) پروڈیوس کرتے دیکھناچاہتے ہیں۔
حالیہ تاریخی خطبات(بشمول تربت یونیورسٹی ،لمزیونیورسٹی) سے جہاں انتہائی غیرروایتی ماحول دیکھنے کے افسانہ نماحقائق کاچرچاہے وہیں متواترچھ سے سات گھنٹوں طویل نہایت حساس اورتندلہجے کے سوالات کے بردباری سے (سنگینوں کے سائے تلے جوان ہوتے تابعدار “دلائل” )سے رنگے مدلل جوابات دیئے گئے۔جمہوریت اور آزادی کی نعمتوں کے اسراف کومتوسط طبقہ ہالی ووڈ کی فلموں میں دیکھ کر کڑھتاہے اوران کے حصول اور کفایت شعاری کے ضابطے تخلیق کرنے لگ جاتاہے۔لیکن متوسط طبقہ کومکمل یقین ہوتاہے کہ جمہوریت بلواسطہ مارشل لاءکے مترادفات میں شامل ہے۔
ان ژولیدہ فکرتاثرات کومحض جنریشن ملینیئم سے متعلق ایک رکن سے مخصوص نہ سمجھئیے انہیں جنریشن زی خوب محسوس کرتی ہے۔لہٰذا نایاب و نادرعلم شاہی سے بہرہ ورمحققین کی بجائے عوامی علم ومشاہدات میں پلے بڑھے دیدہ وروں سے روابط بحال کریں۔پانچ ستارہ کی بجائے تڑے پرنظریں مرکوزکریں کراہت آمیزپیشانی کی شکنوں سے وہ بدظن ہوں گے۔
دشمن کے بچوں کواپنی جرات اوربہادری کے قصے پڑھانے کے شوق میں کہیں ہم اپنے ہی بچوں کوقتل کرکے محض ایک افسانوی مہم جوتونہیں بن چکے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں