آزاد انسانی حقوق کمیشن (IHRC) کا کہنا ہے کہ کندھار میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران 33 سول سوسائٹی کے کارکن ، صحافی اور قبائلی عمائدین کو ہلاک کیا گیا ہے۔
کمیشن نے مزید کہا کہ ان افراد کو طالبان اور افغان حکومت دونوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ طالبان اور حکومت کو اپنی جنگوں کے دوران شہریوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کے جانوں کا خیال رکھنا چاہئے۔
کندھار میں حالیہ شہریوں کے قتل کی متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ مبینہ طور پر طالبان نے اسپن بولدک کے سرحدی گزرگاہ پر قبضہ کرنے کے بعد درجنوں افراد کو علاقے سے بے دخل کردیا ہے یا انہیں ہلاک کیا گیا ۔
ادھر انسانی حقوق کے بین الاقوامی تنظیم (IOHR) نے کہا ہے کہ اسپن بولدک پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے مقامی لوگوں کے گھروں سے نو افراد کو پکڑ لیا تھا اور درجنوں افراد کو ہلاک کیا ہے۔
افغانستان کے مرکزی اٹارنی جنرل کے دفتر نے بھی کل دیر گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ معلومات کی چھان بین کر رہے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ طالبان نے اسپن بولدک میں لوگوں کو گھروں سے بے دخل کیا اور پھر انہیں ہلاک کردیا ہے۔
پراسیکیوٹر کے دفتر کے مطابق ، واقعہ بین الاقوامی معاہدوں کے تحت ایک بین الاقوامی جرم ہے اور افغان تعزیرات بھی نسل کشی اور جنگی جرائم کے مجرم ہے۔
واضح رہے کہ طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی سے نہ صرف عام عوام ہجرت کرنے پر مجبور ہیں بلکہ افغان نیشنل آرمی کے سینکڑوں فوجی جان بچانے کی غرض سے سرحد عبور کر چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کندھار میں مہاجرین کے لیے قائم ادارے کے سربراہ، دوست محمد نایاب کا کہنا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں 22 ہزار سے زائد خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس ضمن میں بے گھر افراد کے لیے ایک عارضی کیمپ بنایا ہے جس میں تین وقت کی روٹی کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
حکام خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر لڑائی مزید طول پکڑتی ہے تو مزید شہری در بدر ہونے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ افغانستان کے جنوبی صوبے کندھار کو طالبان کے 1996 سے 2001 کے دورِ اقتدار کے دوران مرکزی حیثیت حاصل رہی تھی۔
چھ لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل کندھار کابل کے بعد افغانستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔
دوست محمد نایاب کا مزید کہنا تھا کہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ لڑائی تاحال جاری ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں اجناس کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی اشیا کی بھی قلت ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب تشدد اور طالبان کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے افغانستان کے 34 میں سے 31 صوبوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جس کے مطابق رات 10 بجے سے صبح چار بجے کے درمیان کسی قسم کی نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہو گی۔ کابل، پنج شیر اور ننگرہار کو کرفیو سے استثنیٰ حاصل ہے۔
کندھار شہر کے عینو مینہ علاقے میں مقیم صحافی بشیر نادم نے امریکی نشریاتی ادارے وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کندھار میں طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو پولیس کی نا اہلی قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر امن و امان کی ذمے داری پولیس کی ہوتی ہے لیکن بد قسمتی سے یہاں پولیس حکومت کے بجائے شخصیات کے تابع ہوتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب افغانستان کی اسپیشل فورسز طالبان کے خلاف برسرِ پیکار ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ بہت جلد چھینے گئے تمام علاقے طالبان کے کنٹرول سے آزاد کرا لیے جائیں گے۔
بشیر نادم کے مطابق افغان سپیشل فورسز کی پہلی ترجیح طالبان کی پیش قدمی روکنا ہے۔ اس کے بعد ان تمام علاقوں کی جانب پیش قدمی ہو گی جو کہ حالیہ ہفتوں میں ان سے چھینے گئے ہیں۔
بشیر نادم کا مؤقف ہے کہ طالبان لوگوں کے گھروں میں مورچہ زن ہو چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ افغان فورسز کو آپریشن میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
طالبان کی حالیہ پیش قدمی کے باعث افغانستان پر جہاں ایک طرف خانہ جنگی کے بادل منڈلا رہے ہیں وہیں ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے اپنے ہی ملک میں نقل مکانی کر کے دربدر ہو گئے ہیں۔
ہزاروں افغان شہری سر چھپانے اور پر سکون مقامات کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔