سوویت یونین سے مجاہدین اور امریکہ سے طالبان تک – بختیار رحیم بلوچ

417

سوویت یونین سے مجاہدین اور امریکہ سے طالبان تک

تحریر: بختیار رحیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

افغانستان ایک قدیم ملک ہے۔ یہ ملک جنگی اعتبار سے بے حد اہم ہے ۔اس لیے اسے دنیا کے بڑے بڑے سُپر پاور بھی قبضہ کرکے چین سے نہیں بیٹھ سکے ۔

اس میں آباد قومیں بھی زمانہ قدیم سے آباد ہیں اس میں آباد قوموں کی بہادری، مہمان نوازی ،ثقافت،اور سخت روایات کو یقیناََ پوری دنیا تسلیم کرتی اور مانتی ہیں اور یہ بات بھی غلط نہیں ہے یہ قوم بلوچ قوم کی طرح بدقسمت بھی ہوسکتی ہے ۔

بلوچ قوم پرست لیڈر نواب خیر بخش مری سے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا کہتے ہو بلوچ بد قسمت ہیں ؟ نواب مری جواباََ کہتا ہے بدقسمتی ہے ۔لیکن میں بدقسمت نہیں کہتا ہوں کیونکہ قوموں پر ایسی مشکلات کے اُتار چھڑاؤ آتے رہتے ہیں۔ انسان کو یہ سب قسمت پر ڈال کر رونا دھونا نہیں چاہیئے بلکہ اتحاد ،اتفاق، مستقل مزاجی ، صبر ،تحمل اور حکمت عملی سے کام لے کر سب مشکلات کو سمجھنا چاہیئے تاکہ خود کو اور اپنے آنے والی نسلوں کو دوسری قوموں کی غلامی سے بچایا جا سکتے ہیں۔

اگر نواب خیر بخش کی بات کو افغان بھی یہی مانیں ہم بدقسمت ہیں ۔ اور اس بات پر اتفاق کریں قوموں پر ایسی مشکلات آتے رہتے ہیں ۔یہ سارے قسمت پر ڈال کر رونے دھونے کے بجائے عقل مندی ، مستقل مزاجی صبر ،تحمل اور حکمت عملی، اور کامل دلیل سے کام لینے سے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔

یقیناََ افغانستان کے پچاس سالہ خانہ جنگی کو کوئی نہیں روک سکتا اور افغان جنگ کے امن میں تبدیل ہونے میں کوئی شک نہیں بچ جاتا ۔

مظلوم افغانوں کی سرزمیں افغانستان کی خانہ جنگی کی تاریخ کو زیادہ دور نہیں بلکہ 1979ء سے دیکھا جائے، وہاں پر دنیا کے نام نہاد دو ٹَکے کے عالمی سُپر پاور سوویت یونین نے مظلوم افغانوں کی سر زمین پر چڑھائی کرکے اسے قبضہ کرلیا۔

دوسری طرف افغانستان کی ایک آزاد،مستحکم ریاست ،امن امان اور ترقی افغانوں کو اپنے ملک میں امن سے رہنے کچھ بیرونی قوتوں کو ویسے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔

ماہرین بتاتے ہیں اس جنگ میں ،امریکہ ، پاکستان ، سعودی عرب سمت بہت سے ممالک نے سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کو کھڑا کرکے جانی ، مالی،اخلاقی مدد دے کر لڑاتا رہا جدید ہتھیارکی امداد دیتے رہے ۔

مجاہدین کو پاکستان میں دینی مدارس میں اکساتے،اور برین واش کرتے تھے ۔بعد میں فوج اور خفیہ ایجنسیاں کے ہاتھوں جنگی تربیت دیتے تھے اور انہیں استعمال کرتے رہے ۔ تاکہ سوویت یونین کو مار بھگایا جائے تاکہ افغانستان میں سوویت یونین اور اسکے اتحادی زیادہ دیر تک نہ رہ سکیں۔

اس جنگ میں ہزاروں کی تعداد مظلوم افغان شہید اور زخمی ہوگئے ۔ افغانستان کو معاشی طور پر بہت پیچھے دھکیل دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد افغان مسلمان نان شبینہ کا محتاج ہو کر پاکستان سمت دوسرے ہمسایہ ممالک میں جاکر پناہ گزین ہوکر مہاجریں کی زندگی گزانے لگے۔

لیکن پناہ لے کر مہاجریں کی زندگی گزانا انہیں مجاہدیں،طالبان اور سوویت یونین کی دہشت گردی سے کم نہیں تھی ۔ آج تک ان پر وہی ظلم ،جبر جاری ہے ۔کہیں شیعہ اور سنی کے نام پر ٹارگٹ کلنگ ہوتے رہے ۔کہیں بیرونی ایجنٹ کے نام پر ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے۔

آج تک لاکھوں کی تعداد پاکستان میں موجود ہیں وہ شاید نان شبینہ کی محتاجی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔موجود ٹیکنالوجی کے طور میں دنیا کی ترقی یافتہ قومیں چاند پر اپنا جھنڈا گاڑھ کر دنیا میں سپر پاور ہونے کا اعزاز وصول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دوسری طرف مظلوم افغان مہاجرین پاکستان جیسے غریب ممالک میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں، انکے بچے مجبور کچرہ چننے کا کام کرتے ہیں ۔اپنے دو وقت کی سوکھی روٹی بہت مشکل سے پورا کرتے ہیں لیکن دوسری بات یہ ہے کہ افغانوں کو خانہ جنگی کی چکّی میں پِسانے والے افغان مہاجریں کو برداشت نہیں کر پا رہے۔

اسی لئے گزشتہ دہائی سے افغان بھگاؤ ملک بچاؤ کے نعرے لگاتے آ رہے ہیں ۔

اس نعرے کا جواب شہید عثمان کاکڑ اور اسکے پارٹی کے صدر محمود خان اچکزئی یہی دے دیتے آ رہے ہیں ۔اب افغان اس خانہ جنگی میں پاکستان سے نکل کر افغانستان واپس نہیں جاسکتے ۔اگر افغان بھگانا ہے ۔اسلام آباد کو افغانستان میں اپنا جنگی مداخلت بند کرنا ہوگا ۔ وہ یہاں کے ایم پی اے کے سیٹ پر بیٹھے پر تیار نہیں ہونگے۔

تجزیہ نگار کہتے ہیں افغان مجاہدین کو امریکہ پاکستان ،سعودی عرب سے امداد حاصل تھی۔ وہ جدید ہتیھار سے سوویت یونین کےفوج سے لڑتے رہے ۔سوویت یونین کی اس معاملے میں ٹانگ اڑانا اسے مشکل پڑ گیا ۔ اس جنگ میں سوویت یونین کو نہ صرف مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ وہ زمینی طور پر ٹوٹ گیا۔سوویت یونین کے وہ زخم شاید آج تک نہ بھر سکے۔

سوویت یونین کے انخلا کے بعد مجاہدین مختلف دھڑوں میں بٹ گئے ۔اس میں ایک ملا عمر نامی شخص نے طالبان کے نام پر ایک جماعت بنائی اس کی جماعت بہت جلد پھولتا رہا آخر کار مجاہدیں کو کچل کر 1996 میں ملا عمر نامی طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی۔اس نے اسلامی شریعت کے نام پر افغان مسلمان بھائیوں پر مصیبت بن پڑے ۔ شریعت کے نام پر لوگوں پر زبردستی داڑھی رکھوانے ،عورت کو گھر سے نہ نکلنے کی دھمکی دینے ، وغیرہ قانون نافذ کر دیے ۔افغان اس چیز سے تنگ آ چکے تھے ۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں القائدہ جیسے اسلامی شدت پسند تنظیم سر ابھارنے لگے۔

2001 میں القائدہ کے سرغنہ اسامہ بن لادن نے نیویارک میں ورلڈ سینٹرپر فضائی حملہ کیا ۔اسکے نتیجے میں مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے 3000 کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔

اس حملہ کے بعد امریکہ نے افغانستان کے اس وقت کے طالبان حکومت ملا عمر سے القائدہ کے سرغنہ کی امریکی کی حوالگی کے درخواست کی ۔تو طالبان حکومت اپنی روایات اور ثقافت کا برخلاف سمجھ کر انکار کیا۔

اسکے بعد امریکہ اور اسکےاتحادیوں نے افغانستان میں چھڑائی کی۔ طالبان حکومت کو تین مہینے کے اندر اندر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔اس وقت کچھ طالبان افغانستان اور پاکستان میں روپوشی کی زندگی گزارنے لگے ۔

آخر کار القائدہ کے سرغنہ کو امریکہ نے 2011 میں پاکستان کے شہر ایبٹ میں آباد میں مار ڈالا ۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے افغان طالبان کے خلاف امریکہ نے کاروائی کرکے کمزور کر دیا لیکن وہ جڑ سےختم ہوکر نیست و نا بود نہ ہوئے۔

وہ دیہی علاقوں میں کاشت کاروں ، کان کنوں ،گلہ بانی کرنے والوں سے بھتہ وصول کرکے اپنے آپ کو مالی طور پر مستحکم کرتے رہے ۔انکے دہشت گردی کی تربیت بھی ہمسایہ ممالک کے مدارسوں اور فوجی کیمپوں میں ہوتے رہے ۔کچھ سال بعد طالبان نے طاقت جما لیے ۔دوبارہ افغان سیکورٹی اور امریکی فوج پر حملے کرنا شروع کئے ۔ اب ان حملوں کو امریکہ ،اور افغان سیکورٹی کچل نہ سکے ۔ بیس سال کی جاری طالبان کے حملے کو امریکہ اور اسکے اتحاد کچل نہ سکے ۔اسے اب دو دہائی بیت گئے ۔امریکہ اس جنگ میں کروڑوں ڈالر کو نقصان بھی کر گیا ۔

امریکہ کی افغانستان میں جنگ کا تھک ہارنے کا واویلا ٹرمپ حکومت کے آخری سال کانوں میں کڑکنے لگے ۔بظاہر امریکہ چاہتا تھا برائے نام کا کوئی امن مزاکرت ہو تاکہ میں عزت سے بوری بستر گول کر سکوں۔

تاکہ ظاہر یہی ہو کہ امریکہ نے افغانستان پر ایک جمہوری حکومتی بحال کرکے اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے چھوڑ رہا ہے ۔

اس لئے قطر سمت مختلف ملکوں پر افغان طالباں اور امریکہ کا برائے نام کا مذاکرات بھی ہوئے بظاہر دونوں فریق نے مذاکرت پر کچھ عمل کئے ۔حالانکہ ان دو دہائی تک جاری ہونے والے جنگ کے بعد امریکہ اور طالبان معاہدہ کو پوری دنیا امن کا مذاکرات سمجھ رہے تھے۔ اور اس مزاکرات سے فائدے افغان عوام ،حکومت ،اور فوج کے بجائے امریکہ اور طالبان کو ہوئے ۔

اب امریکہ کی فوج کی انخلا بغیر کوئی جیت ہار کے فیصلے سے بہت تیزی سے جاری ہے ۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کےفوج نے افغانستان پر بڑے بڑے فصائی اڈے اور بگرام بیس کو افغان سیکورٹی کے حوالے کر دئے ۔ بگرام بیس کوامریکہ کا سب سے بڑا فوجی فضائی اڈہ سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان وزیر اعظم کی طرف سے اب یہی بیان سامنے آ رہے ہیں پاکستان امریکہ کو فضائی اڈہ نہیں دینا چاہتے۔اگر پاکستان نے امریکہ کو اڈہ دے دی طالبان پاکستان کے مخالف ہونگے پاکستانی وزیر اعظم کے مطابق پاکستان اب افغانستان کی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتے ۔اس سے پہلے ایسی غلطی کرکے کرڑوں ڈالر معیشت اور 70 ہزار جانین کھوئی جا چکی ہے

بظاہر امریکہ اور اسکے اتحاد اشرف غنی کی حکومت افغانستان کی جنگ اور طالبان کا مالی امداد کو براہ راست پاکستان کا مداخلت قرار دے رہے ہیں۔

حالانکہ امریکہ کی طرف سے ایسی کوئی بیاں کسی کے سامنے نہ گزرا ہے کہ وہ پاکستان سے اڈہ کا مطالبہ کر رہا ہے ۔تاکہ بوقت ضرورت پر وہ افغانستان میں فضائی کاروائی کرے ۔

لیکن افغان طالبان نے پاکستانی وزیر اعظم کے بیان کے جواب میں یہی کہا ہے پاکستان کو اب امریکہ کو کوئی اڈہ/ ٹھکانہ دینے کا غلطی نہیں کرنی چائیے بہ صورت دیگر اسے مہنگی پڑے گی ۔

اب افغانستان سے روزانہ مختلف خبریں آ رہے ہیں کھبی طالبان کے زیادہ مارے جانے کی خبریں میڈیا میں گردش کرتی ہیں ۔کبھی افغان سیکورٹی کی ہلاکتوں کی خبر میڈیا میں بطور ہیڈ لائن شو ہو جاتے ہیں۔کبھی افغان سیکورٹی کے بغیر مقابلہ اور مزاحمت سرنڈر کرنے اور تاجکستان سمیت دوسرے سرحدی ملکوں میں فرار ہونے کی خبریں میڈیا میں پھیل رہے ہیں۔

امریکہ صدر بائیڈن کے خبریں بھی کھبی کچھ اور کھبی کچھ ہیں کھبی کہہ رہا ہے افغانوں کو اپنی حفاظت خود کرنی چائیے ۔کھبی کہہ رہا ہے کہ افغانستان کو بے یار مدد گار نہیں چھوڑ سکتے ۔

بظاہر اب افغانستان طالبان اور افغان سیکورٹی کے ہاتھوں میں ہے انکے مرضی ۔وہ یہ مسئلہ خانہ جنگی کی طرف لے جائیں یا عوامی رائے سے ایک مشترک مستحکم جمہوری حکومت قائم کرینگے ۔ افغانستان کے سو سالہ جنگ کو امن میں بدل دینگے ۔

دوسری طرف ماہریں اور تجزیہ نگاروں کے خیال سے اگر طالبان نے بندوق کے بل اب افغانستان کو قبضہ کرلیا ۔اسکی حکومت مچھلی بے آب ہو کر رہ جائے گئی ۔کیونکہ شدت پسندی سے ملک کو قبضہ کرنے سے اسے کوئی ملک اور حکومت نہیں مانے گی نہ اسے اقوام متحدہ تسلیم کرے گی۔ ظاہر ہے طالبان کو حکومتی کے لئے پیسہ اور مدد کی ضرورت ہوگی ۔افغانستان کو5/ 4 دہائی سے زیادہ عرصے کی جنگ نے تہس نہس کرکے کھوکھلے کر دیا ہے۔

بظاہر طالبان کی طرف سے ایسے کوئی رویہ نہیں دیکھائی دے رہا وہ امریکی فوجی انخلا کے بعد ایک متحد،مشترک ، جمہوری حکومت قائم کرینگے ۔فی الحال طالبان کی طرف سے یہ خبر سامنے آیا ہے وہ اپنے قبضہ کرنے حکومتی قائم کرنے کے بعد این جی اوز کو کام کرنے دینگے اسکی لڑائی صرف بیرونی ممالک اور اسکے اتحادی کے فوج پر ہیں۔

دوسری طرف دانشوروں کے خیال میں افغانستان کی خانہ جنگی پاکستان پر برا اثر مرتب کرے گا۔کیونکہ پاکستان میں پناہ گزین آنے کے خطرے ہونگے ۔ویسے پاکستان میں پہلے سے تیس لاکھ کے قریب پناہ گزین پاکستان میں آباد ہیں۔ پاکستان اب پناہ گزین کو جگہ روٹی مکان نہیں دے سکتا ۔پاکستان خود کئی مسئلوں میں پھنسا ہوا ہے ۔

بظاہر پاکستان افغانستان کے بارڈر کو باڑ لگا کر بند کیا ہے ۔خانہ جنگی کی صورت میں اسے عالمی قوتوں کے کہنے سے کھولنا پڑے گا ۔

بلوچ تجزیہ نگار اور معروف صحافی برادران کی پیش گوئیاں کے مطابق افغانستان کی دوبارہ خانہ جنگی افغانستان کو تباہی سے دوچار کر دیگی۔لیکن ۔اسکی اثر پاکستان پر برے ضرور پڑ سکتی ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں