کیا میں کہہ دو میرے چاند – محمد خان داود

100

‎”کیا میں کہہ دو میرے چاند
‎”مجھے تم سے محبت ہے!“

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

‎لاہور یونیورسٹی میں پڑھنے والے نوجوان جوڑے کا کیا قصور تھا سوائے ان الفاظ کے جن الفاظ کو نزار قبانی نے یوں بیاں کہیا ہے کہ
‎”تمہا ری آنکھیں جھیل سی ہیں
‎تمہا رے لب پھول سے ہیں
‎اور سنو!تم محبت کی ندی سی ہو
‎کیا میں کہہ دو میرے چاند
‎”مجھے تم سے محبت ہے!““
‎اور اس نوجوان جوڑے نے ایک دوسرے کو بس نزار قبانی کے یہی تو الفاظ کہے تھے!
‎ایک نے گھٹنے ٹیک کر پھول آچھے(دیے)اور دوسرے نے اس گھٹنے ٹیکے کو اُٹھا کر گلے لگا دیا
‎یوں محبت،محبت میں سما گئی
‎کیا یہ ایسا قصور ہے جس کو بنیاد بنا کر ان نوجوانوں کو یونیورسٹی سے خارج کیا جائے اور ساتھ میں ایسا بھی نوٹیفکیشن نکالا جائے کہ لاہور یونیورسٹی کے جتنے بھی ذیلی کیمپس ہیں ان کیمپس میں ان کو داخلہ نہیں دیا جائے گا؟
‎اب سوال یہاں پر یہ ہے کہ ایک جوان آزاد بالغ جوڑا ایک دوسرے سے محبت کا اظہار بھی نہ کرے تو پھر کیا کرے؟
‎ہاں ہم یہ بات بھی مانتے ہیں کہ تعلیمی ادارے ایک مارکیٹ کی شکل لے چکے ہیں اگر وہاں محبت کے اظہار کی کھلی چھوٹ دی جائے گی تو اس مارکیٹ پراثرہوگا،تو ہوسکتا ہے کہ یہ تعلیمی ادارے اس نظر سے محبت کے اظہار پر بندباندھتے ہوں،پر یہ کیسا ظلم ہے کہ کوئی محبت کا اظہار بھی نہ کرے اور اگر کوئی محبت کا اظہار کرے تو ان کے مستقبل سے کھیلا جائے اور انہیں اتنی بڑی سزا دی جائے جس سے پہلے ان کا مستقبل بعد میں ان کا جیون ہی اُجڑ جائے!
‎لاہور یونیورسٹی کے اس عمل پر لاہور یونیورسٹی کے زمہ داران کون پوچھے گا؟
‎لاہور یونیورسٹی کے اس عمل پر ہر کوئی باشعور جو سوچتا ہے،سمجھتا ہے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ لاہور یونیورسٹی کے اس عمل پر لاہور یونیورسٹی سے پوچھ سکتا ہے کہ وہ نوجوانوں کے محبت کے اظہار،ان کے مستقبل اور ان کے جیون سے کیوں کھیل رہا ہے
‎پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سب کچھ ہوسکتا ہے پر محبت کو زباں نہیں دی جا سکتی
‎چاہےوہ تعلیمی ادارے پبلک ہوں چاہے پرائیویٹ!
‎ان تعلیمی اداروں میں مشال خان کو زندہ جلایا جا سکتا ہے،اس پر بے تحاشہ تشدد کیا جا سکتا ہے،اسے لوہے کی سلاخوں سے پیٹا جا سکتا ہے،اس کے سر کو بلاکوں سے کچلا جا سکتا ہے،اور اس کے جسم کو آگ لگائی جا سکتی ہے،پر محبت کوزباں نہیں دی جا سکتی!
‎پاکستان کے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کو ہراساں کیا جاسکتا ہے،انہیں ہراساں کر کے فیل کیا جاسکتا ہے،انہیں اچھے نمبروں کا جھانسا دیکر ان کی عزتوں سے کھیلا جاسکتا ہے۔ان سے دوستی رکھنے کا دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی دوستی نہ رکھے تو انہیں اتنا پریشان کیا جائے کہ وہ کسی دن پھانسی کے پھندے سے جھول جائے،ان کے کمروں،واش روموں میں ڈریس بدلنے کی جگہ پر خفیہ کیمرے لگائے جا سکتے ہیں پر ان تعلیمی اداروں میں محبت کو زباں نہیں دی جا سکتی!
‎ان ہی تعلیمی اداروں میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ جوان لڑکیاں پھانسیوں کے پھندوں سے جھول گئیں اور تفتیش کے نام پر وہ ساری تفتیشیں سرد خانوں کی نظر ہوگئیں یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ ان جوان لڑکیوں نے کیوں اپنے جیون کا دئیا بجھا دیا
‎راہ چلتے حسین چہروں پر تیزاب تو پھینکا جاسکتا ہے پر محبت کو زباں نہیں دی جا سکتی
‎ان ہی تعلیمی اداروں کی سنسان سڑکوں اور بند کمروں میں ریپ تو کیا جا سکتا ہے پر محبت کو زباں نہیں دی جا سکتی!
‎لڑکیوں کو اتنا مجبور تو کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی تعلیم بھی پو ری نہ کر پائیں یا گھروں کو لوٹ جائیں یا تو وہ یہ دنیا ہی چھوڑ جائیں پر محبت کو زباں نہیں دی جا سکتی!
‎لاہور یونیورسٹی میں بھی ایسا کچھ برا نہیں ہوا جس کو ایک بری خبر بنا کر پیش کیا جائے اور جو جوان زندگیوں کا تماشہ بنا دیا جائے وہ تو بس محبت کا اظہار تھا جب سینوں میں مقید دل محبت سے لبریز ہو جائیں اور ایک دوسرے کے لیے دھڑکنے لگیں تو کیا کسی کو اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ کسی کو کہہ سکے کہ
‎”کیا میں کہہ دو میرے چاند
‎”مجھے تم سے محبت ہے!“
‎یہ تو محبت کا فطری اظہار ہے جو ایک دل دوسرے دل کو کہہ سکتا ہے اور جب محبت کچھ اور سوا ہو جائے تو کانوں میں سرگوشیاں ہونے لگتی ہیں اور دھڑکتے دل والا انسان آگے بڑھ کر اپنے محبوب کو اپنی باہوں میں بھی بھر لیتا ہے اور اس کے گلابی رخساروں اور اناری ہونٹوں کو بھی چوم لیتا ہے
‎کیوں کہ محبت کا جنم دلوں میں ہوتا ہے
‎اور اس کا اظہار ہونٹوں،لبوں،بہانوں اور زباں سے کیا جاتا ہے
‎لاہور یونیورسٹی میں پڑھنے والے نوجوانوں نے بھی تو بس محبت کو زباں دی ہے اور ان کا کیا قصور ہے؟
‎محبت کے اس اظہار کو کوئی نہیں روک سکتا کیوں کہ محبت کا جنم وہاں ہوتا ہے جہاں انسانوں کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے ایک انسان کسی کا گلا تو دبا سکتا ہے اس کے سینے میں بندوق کی گولی تو اتار سکتا ہے اسے پھانسی پر تو جھولا سکتا ہے اس کے سر کو کلھاڑی سے دو حصوں میں تقیسم تو کر سکتا ہے اس کے جسم پر کئی الزام تو دھر سکتا ہے،اس کے جسم کو آگ میں تو جھونک سکتا ہے اس پر الزاموں کی بارش تو کر سکتا ہے،
‎اس کی زندگی تو لے سکتا ہے پر محبت کے اظہار کو نہیں روک سکتا
‎کیوں کہ جہاں محبت کا جنم ہوتا ہے وہاں وحشی ہاتھ نہیں پہنچ سکتے
‎لاہور یونیورسٹی کے ہاتھ بھی وہاں نہیں پہنچ سکتے جہاں محبت کا جنم ہوا ہے
‎اور محبت اپنے اظہار کے ہزاروں راستے تلاش لیتی ہے
‎جس کے بعد محبت،محبت میں گاتی ہے کہ
‎”تمہا ری آنکھیں
‎جیسے غموں کے دو دریا
‎جیسے دریا ساز
‎جو مجھے لے گئے تھے
‎آگے زمانوں سے آگے
‎دونوں دریا ساز کہیں کھو گئے ہیں
‎میری سیدہ
‎ان دونوں نے مجھے بھی کھو دیا
‎ان دونوں پر سیاہ آنسو
‎یوں گرتا ہے جیسے سُروں کا جھرنا
‎تمہا ری آنکھیں
‎میرا تمباکو
‎میری الکحل
‎اور دسواں جام
‎جس نے مجھے نابینا کردیا ہے
‎میں اپنی نشست میں بیٹھا جل رہا ہوں
‎میری آگ کو میری ہی آگ کھائے جا رہی ہے
‎کیا میں کہہ دو
‎میرے چاند
‎”مجھے تم سے محبت ہے!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔