مگر ہم بھلا دیتے ہیں – حکیم واڈیلہ

642

مگر ہم بھلا دیتے ہیں

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ کچھ روز سے سوشل میڈیا میں ایک اور نہتے و بے گناہ بلوچ، حیات مرزا کی ایف سی کے ہاتھوں انسانیت سوز تشدد کے بعد شہادت اور اس کے بعد سامنے آنے والے ردعمل کو دیکھ کر ذہن میں ایک سوال گردش کرنے لگا ہے کہ کیا ہم واقعی ان تمام مسائل پر سنگینی سے سوچتے ہیں؟ پالیسی مرتب کرتے ہیں؟ یا پھر ہم زندہ ہی اسی لئے ہیں کہ کب کوئی حادثہ، واقعہ یا سانحہ پیش آئے اور ہم اُس واقعے کے جذباتی ردعمل کو کیش کرکے کچھ دنوں سوشل میڈیا پر زندہ رہ سکیں۔

یقیناً حیات مرزا کو جس طرح سے تشدد کا نشانہ بنایاگیا، اور پھر شہید کیا گیا وہ واقعہ کسی بھی صورت ایک انسانی المیے سے کم نہیں، لیکن جو سوال یہاں پیدا ہوتا ہے، وہ سوال راقم سمیت ان تمام سیاسی کارکنان، رہنماوں، تنظیموں، جماعتوں اور قوم دوستوں کے مجموعی کردار اور انکے حکمت عملی و طریقہ کار پر پیدا ہوتا ہے۔ یہاں گذشتہ سات دہائیوں کے واقعات کا تذکرہ کرکے اپنے خیالات کو بلاوجہ طویل کرنے کے بجائے ہم دوہزار بیس کے ہی چند واقعات و سانحات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عمل و ردعمل کا تعین کرنے کی کوشش کرینگے۔

دو ہزار بیس میں بلوچ طلبہ کے حقوق کی خاطر طالب علموں کا پریس کلبوں کے سامنے احتجاج ہوں، شہید ملکناز اور برمش کا واقعہ ہو، شھید کلثوم کا واقعہ ہو، شہید ناز بی بی کا واقعہ ہو یا پھر ڈیرہ بگٹی میں بلوچ خواتین کے قتل کا واقعہ ہو یا پھر اب حیات مرزا کے شہادت کا واقعہ ہو۔ کیا ہم ان واقعات کے پیچھے کار فرما سوچ و پالیسی کو اپنے عام لوگوں کو سمجھانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟

کیا ہم نے ایک ایسا لائحہ عمل تیار کیا ہے، جو ریاستی بربریت کُشت خون اور بلوچ نسل کشی کے اس تسلسل کا دنیا کے سامنے پردہ پاش کرسکتا ہو؟ کیا ہم نے یہ سوچنے کی کوشش ہی کی ہے کہ ہمارے احتجاج، سوشل میڈیا کمپینز اور مضامین کا حل کیا نکلا ہے؟

کیا ہمارے اکثر احتجاج ایک ٹرینڈ کو فالو نہیں کررہے ہیں کہ کب، کہاں کوئی واقعہ پیش آئے اور ہم احتجاجی سیاست شروع کردیں؟

درج بالا سوالات کا اپنی سوچ و فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش اس لئے بھی کرونگا تاکہ ہم جن ضروری اور اہم ترین عوامل کو اب تک استعمال نہیں کرسکے ہیں وہ اب کم از کم استعمال ہونا چاہیئے۔

بحیثیت ایک سیاسی کارکن اس بات سے قطعی طور انکار نہیں کرسکتا کہ ریاستی بربریت کو روکنے کی خاطر ہمیں اپنی حالیہ پالیسیوں سے بہتر اور جدید پالیسیز کی ضرورت ہے۔ آج سب سے سنگین مسئلہ کسی بھی بلوچ سیاسی جماعت کی خاطر یہی ہے کہ انہیں بلوچستان میں کالعدم قرار دیکر سیاست و سیاسی عمل سے دور رکھ کر ماحول کو پراگندہ کیا گیا ہے۔ لیکن ریاستی بربریت و ظلم کے باوجود آج اس تحریک نے عام بلوچوں کو اس قدر شعوری طور پر پختہ کردیا ہے کہ ان حالات میں بھی دشمن ریاست کی بربریت کیخلاف جدوجہد کررہے ہیں اور روزانہ کراچی و اسلام آباد پریس کلبوں کے سامنے سراپا احتجاج ہیں۔ لیکن عوامی جذبہ و جوش کو شعوری و نظریاتی و پختہ تحریکی شکل دینا ایک قومی جماعت اور اسکے رہنماؤں کا اخلاقی و قومی فریضہ ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ بلوچ آزادی پسند رہنماؤں کا آج بلوچستان میں سر عام سیاست کرنے پر پابندی لگا کر اسے گناہ کبیرہ بنادیا گیا ہے۔ لیکن آج بلوچ ڈائسپورہ میں رہنماؤں اور کیڈرز کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ جو نہ صرف رائے عامہ کو بدل سکتے ہیں بلکہ وہ بیرون ممالک پاکستانی ظلم و بربریت کا پرچار بھی بہتر انداز میں کرسکتے ہیں۔ مگر ایسا اب تک ہوتا دکھائی نہیں دیتا اکثر و بیشتر احتجاج پر اکتفاء کیا جاتا ہے جو یقینی طور پر عوام سے یکجہتی کا بہترین زریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے عالمی سطح پر بلوچ مسئلے کو پذیرائی حاصل کرانے میں کسی بھی طور پر کارآمد نہیں۔ کیونکہ بلوچوں کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ احتجاجی مظاہروں پر اکتفاء کرکے یہ سمجھ لیں کہ انہیں امریکی، برطانوی یا جرمن حکومت خود ہی یہ کہہ کر مدعو کرینگے کہ ہم آپ کی بات سننا چاہتے ہیں یا ان احتجاج کو عالمی میڈیا میں ایسی پذیرائی ملے جسے ایک تاریخی عمل کہا جاسکے۔ یقیناً احتجاجی مظاہرے جاری عمل کا حصہ ہیں لیکن ہماری تمام قوت ہی احتجاج پر خرچ نہ ہو۔

اس حوالے سے ایک ایسی حکمت عملی یا پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت جس کے تحت ڈائسپورہ میں موجود تمام قومی کارکنان اپنے حلقوں میں موجود لوکل لیڈران سمیت پارلیمانی ممبران اور انسانی حقوق کے گروپس سے رابطہ کریں اور انہیں بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے بریف کرنے کی خاطر ایسے دستاویز پیش کریں، جس کے ذریعے بیرون دنیا بہتر انداز میں بلوچ اور بلوچستان کے مسئلے کی نوعیت اور پاکستانی ریاستی بربریت کو سمجھ کر اس مسئلے کی طرف سنگینی اور باریک بینی سے توجہ مبذول کرایا جاسکے۔

مگر افسوس کے ساتھ ہمارے ارد گرد ہم نے جو سیاسی ماحول بنا رکھا ہے، وہ صرف ان چیزوں پر ہی مشتمل ہے کہ کیسے کسی واقعے کو جذباتی حوالے سے کیش کیا جائے اور پھر اس واقعے کو ہی بھلا دیا جائے۔

اسی طرح جب سوشل میڈیا کے استعمال اور اس طرح عوامی تحاریک کی آواز بننے کی بات آتی ہے تو ہمارے رویے اکثر و بیشتر ایسے ہوتے ہیں جن سے ہم کسی بھی احتجاج یا مہم کی آواز بننے کے بجائے ان پر جانے یا انجانے میں حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر کچھ دنوں تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ موجودہ تحریک میری کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اور جوں ہی عوامی احتجاج ختم ہوجاتے ہیں تو ہمارے سوشل میڈیا کمپینز بھی سست روی کا شکار ہوکر اختتام پذیر ہوجاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سوشل میڈیا میں موجود ان آوازوں کو جنہیں سنا جاتا ہو، پڑھا جاتا ہو، ان سے بہتر تعلقات بنا کر ان سے یہ کہا جائے ایسے واقعات کو رکنے یا تھمنے نہ دیا جائے جس سے ایک تو ان واقعات پر وقتاً فوقتاً مباحث جاری رہینگے، دوسری طرف رائے عامہ کو بھی ہم اپنی طرف بدلنے میں کسی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں، مگر بدقسمتی سے ہماری انا ہمارے ذاتی ضد اور ہمارے اندر موجود غیر ضروری نفرت انگیز رویے ہی بہت سے ایسے مواقع گنوانے کا سبب بنے ہیں۔

آج حیات کے واقعے پر غمگین اور جذباتی سیاسی کارکنان و عوام کو اگر کوئی پالیسی دے سکتے ہیں اور راستہ دکھا سکتے ہیں تو وہ ہیں سیاسی لیڈران و جماعتیں۔ آپ عوام کے سامنے نہیں جاسکتے لیکن آپکا پیغام ان تک پہنچ سکتا ہے۔ آپ ویڈیو، آڈیو یا تحاریر کی شکل میں اپنا پیغام ان تک پہنچا سکتے ہیں۔ انہیں یہ یقین دلاسکتے ہیں کہ یہ ظلم و جبر بلوچستان کے تمام انسانوں کی نسل کشی کا تسلسل ہے۔ لیکن کیا یہ تمام بنیادی چیزیں ایک سیاسی جماعت کے حکمت عملی کا پیشگی حصہ نہیں ہیں؟ اگر حصہ ہیں تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کیوں اپنی ذمہ داریوں کو سرانجام دینے سے غافل ہیں؟

آج ریاستی بربریت نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ آپ آزادی مانگیں یا حقوق، آنلائن کلاسز کیخلاف ہوں یا منشیات کیخلاف آپ کے ہر ایک احتجاج ہر ایک بات ہر ایک سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ جواب آپ کے سینے میں پیوست ہوتی بندوق کی گولیاں ہیں ۔ جب ریاست کے ان تمام جرائم پر آپ گفتگو کرینگے، بار بار کرینگے لگاتار کرینگے تو یقیناً آپ کی بات آپ کی آواز ایک انقلاب شعوری انقلاب جو جذباتی بنیادوں پر شروع تو ہوئی ہوگی لیکن وہ اپنے مستقل مزاجی و شعوری پختگی کے سبب ہی اس طویل سفر پر مسلسل چلنے کی قابل ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔