حیات جان اور شال کے نوجوان – محمد عمران لہڑی

677

حیات جان اور شال کے نوجوان

تحریر: محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

حیات جان امید ہے آپ آرام و سکون سے ہوںگے۔ اففف یار میں تو بھول ہی گیا کہ آپ اپنے جسم میں آٹھ گولیاں بھی لے گئے. ارے یار! آپ مجھے بتاؤ کہ آپ کے زخم کیسے ہیں؟ اپنے خوبصورت چہرے بلکہ پورے جسم پر بھاری بوٹوں، مکھوں، لاتوں، بندوق کے بٹ سے تشدد کے نشانات لیکر ہم سے بہت دور چلے گئے. اتنا دور کے ہم آپ کے عیادت کیلئے بھی نہیں آسکتے. اففف یار! آپ اس زخمی جسم کے ساتھ ہمارے درمیان ہوتے، وہ تمام لوگ آپ کے اردگرد جمع ہوتے، جن کے علاج کیلئے آپ کراچی شہر میں کبھی اس ہسپتال کا چکر کاٹ کر نمبر لیکر کبھی دوسرے ہسپتال کا. جو بھی کراچی کا رخ علاج کے واسطے کرتا آپ کو حال احوال کرتا. ارے یار! آپ تو اپنے تعلیم سے زیادہ دوسرے اپنے بلوچ بھائیوں کا خیال رکھتے. کاش آج آپ ہمارے درمیان موجود ہوتے، آپ ہم ست وہ بے دردی سے کیئے گئے تشدد کا واقعہ بیان کرتے. آپ کیلئے ہم ایک لیکچر پروگرام رکھتے جہاں آپ ان خونخوار درندوں کے کیئے گئے انسانیت سوز تشدد کو اپنے زبان سے بیان کرتے.

حیات جان آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ آج کوئٹہ جیسے گنجان آبادی والے شہر میں آپ کے بے رحمانہ قتل اور آپ کو انصاف دلانے کیلئے ایک احتجاجی مظاہرہ ہوگیا. یار میں ابھی آپ کے تکالیف کو اور زیادہ نہیں کرنا چاہتا، بس میری مجبوری ہے کہ اپنے بزدل لوگوں کا حقیقت آپ کے سامنے بیان کروں. اففف یار! حیات جان مجھے پتہ ہے میرا یہ کلہو پڑھ کر آپ کو سخت دکھ اور آپ کے روح کو اذیت پہنچے گا. اے کاش! آپ کے جسم میں پیوست آٹھ گولی ان بزدلوں کو لگتے، جن کو آپ کا احساس تک نہیں ہوا. میرے یار شال کے بزدل عوام کو کبھی معاف نہیں کرنا. کل جب آپ کے حق میں مظاہرے کا اعلان ہوا تو میں دل میں سوچ رہا تھا کہ بس آج شال کا بازار لوگوں کے ہجوم سے بھر جائے گا….. ظالموں کے نیندیں حرام کریں گے. قاتلوں کو سرے عام پھانسی پر لٹکایا جائے گا. آپ کا روح سکون سے سو جائے گا. آپ کی آنسو بہاتی ماں کو کچھ حوصلہ ملے گا. بوڑھا باپ لوگوں کا ہجوم دیکھے گا تو آپ کی جدائی کا درد تھوڑا کم ہوگا. آپ کا بھائی یہ محسوس کرے گا کہ حیات جان صرف ہمارا بھائی نہیں تھا بلکہ پورے بلوچستان کا بھائی تھا لیکن اے یار یہاں کے لوگ بزدلی میں حد کرگئے. پریس کلب کے وہ کچھ میٹر پر مشتمل روڈ بھی نہیں بھر سکا۔

آج کے مظاہرے میں کوئٹہ شہر کا 10 فیصد لوگ بھی شامل نہیں تھے. تاجر اپنا تجارت کررہا تھا، وکیل اپنی وکالت کو نہیں چھوڑ سکا، نوجوان اپنے موج مستی میں مگن تھے. نہ کوئی ملا آیا نہ سیاسی لیڈر اور نا دانشور. سب کے سب بزدلی کا چادر اوڑھ کر گھر میں کونے میں چھپ گئے…

جی ہاں! حیات جان آپ کو تو کسی عام بندے نے قتل نہیں کیا، نہ کہ آپ معصوم برمش اور ملک ناز اور بی بی کلثوم کی طرح نامعلوم کے ہاتھوں شہید ہوئے. آپ کے قاتل کا تو سب کو پتہ ہے. بلوچستان کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ آپ کا قاتل کون ہے. پھر بھی کوئی کھڑا نہیں ہوا.

حیات جان شال کے باشندوں کو بزدلی کا سانپ سونگھ گیا ہے… اب وہ بیچارے مر گئے ہیں. کوئٹہ کے بلوچ مشہور علاقے کلی اسماعیل، ہدہ، دیبہ، سریاب، قمبرانی کے نوجوان اب تو دلال نواب و سردار، میر و معتبر کے آگے پیچھے گھومتے ہیں. ان کے انگلیوں پہ ناچتے ہیں. بس مرے یار حیات جان شال کے نوجوانوں کو کبھی معاف نہیں کرنا. ان کے اس مجرمانہ خاموشی کو تاریخ یاد رکھے گی.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔