الفاظ زندہ رہتے ہیں – گورگین بلوچ

338

الفاظ زندہ رہتے ہیں

تحریر: گورگین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

زبان، ادب و قوم سے محبت کرنے والے انسان بہت حساس ہوتے ہیں، وہ ہر چیز پر غور کرتے اور جستجو کرتے رہتے ہیں ایسے انسان خود کی پہچان بھول کر اپنے اندر ایک نئے انسان کو جنم دیتے ہیں، یہ نیا انسان انہیں کریدتا رہتا ہے، کسی کو مکمل انسان بنانے میں کامیاب رہتا ہے، کسی کو درمیانی راستے میں چھوڑ کر ابدی نیند سو جاتا ہے۔ مگر ان کے کردار و عمل ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، شاعر اپنی شاعری، سیاست دان اپنا کردار، لکھاری اپنے لفظوں میں زندہ رہتے ہیں۔

چنگیز کو اپنے زبان و ادب سے بے پناہ محبت تھی، وہ ہر وقت عطاشاد، ظہور شاہ، کریم دشتی کو گنگناتے رہتا تھا اور نا جانے کیا کیا لکھتا رہتا تھا، بخشو کی ہوٹل میں وہ چائے اور سگریٹ کی کش کے ساتھ کچھ لکھتے، کچھ گنگناتے ناراضگی کا اظہار کرکے بخشو ہوٹل میں کام کرنے والے زہرو کو آواز لگاتا۔ چنگو کے لیے چائے لاؤ اس کا منہ بند رہے، مگر چنگیز سب سے بے خبر لکھتا اور گنگناتا رہتا، نیم درخت بہت سایہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ پنچیوں کی آواز کے ساتھ اور خوبصورت تھا، بخشو کا ہوٹل اسی وجہ سے بچے، جوانوں، بوڑھوں کا آماجگاہ بن چکا تھا۔

بخشو ہوٹل کے چائے پاؤڈر کے دودھ سے بنتے، یہ سب جانتے مگر زہرو کا ایک ہی آواز تھا، گرما گرم چائے، بکری کے دودھ کے چائے، سارا دن وہاں شاعروں، سیاست دانوں کی بحث ہوتی رہتی تھی۔ کبھی کبھار بات دست گریبانی تک پہنچتی۔ بخشو اپنے ون سائیڈ والے چشمہ کو لگا کر لڑنے سے بچاتا۔ چنگیز ایک بار کتاب لبزانک چی ئِے پڑھ رہا تھا۔ زہرو نے جلد بازی میں گر کر چائے اسی کتاب پر گرا دیا، مگر چنگیز چپ رہا، فرھاد، بشیر، زبرین، اختیار سب تماشائی چنگیز کو دیکھ رہے تھے اور ساتھ تاش کھیل رہے تھے۔ فرھاد نے فوراً کہا چنگو چہ بوت باریں، منی نام چنگو نا انت اے نام منی پیدائشی نامئے بلے منا دوست نئیت سب نے قہقوں کے ساتھ تاش کا بادشاہ پھینکا۔

کئی دن گذرنے کے بعد چنگیز واپس نا آیا، گھر سے معلومات حاصل ہوئیں چنگیز نے کہا ہے کہ جہاں میری زبان، ادب، میرے خیالات کا توہین ہو وہاں جانا میرے لیئے گناہ ہے۔ چنگیز تین سال تک روپوش رہا۔

زگرین نام کا شاعر اچانک ظہور پذہر ہوا اس کا ہر شعر گلوگار گاتے رہے، کسی کو علم نا تھا بلوچ ادب میں ایک نئے نام نے جگہ لیا تھا زگرین زگر۔

زگرین زگر کی شاعری جدید دور کی تھی، زگرین کے کتاب آتے رہے، لوگ پڑھتے رہے، ایک بار زبرین نے کہا چنگو کو کوئی بولے یہ ہے شاعری اس کو پڑھو۔

ایک دن اچانک خبروں کی سرخیوں میں یہ دردناک الفاظ پڑھنے کو ملے، چنگیز عرفیت زگرین زگر نامور شاعر روڈ ایکسیڈنٹ میں ہم سے جدا ہوگئے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔