عام بلوچ اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں – ماما قدیر بلوچ

202

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3737 دن مکمل ہوگئے۔ حیدر آباد سندھ سے سول سوسائٹی کے وفد نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ اس موقعے پر متحدہ عرب امارات و پاکستان میں جبری گمشدگی کے شکار انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کے لواحقین نے بھوک ہڑتالی احتجاج میں شرکت کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے ہم یہاں مصلحت پسندی کا شکار ہوکر پوری قوم کو اندھیرے میں رکھتے ہیں، حقائق کو سامنے نہ لاکر یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ایسا کرنا قوم کے لیے نا اتفاقی اور مزید انتشار کا باعث بنے گی ہم یہ نہیں جانتے کہ اگر ہم نے آج اپنے قوم کو سچ نہیں بتائی اور حقیقت سے آگاہ نہیں کیا تو آنے والا بے رحم کل ساری قوم کو نگل جائے گی اور ہم سب اپنے آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کر پائیں گے۔ ریاستی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواء کے بعد شہید اور اب تک ریاستی عقوبت خانوں میں اذیتیں سہنے والے ہزاروں بلوچوں کے لواحقین کو اس وقت شدید صدمہ پہنچا جب قوم پرست نے 70سالہ اندھیروں میں گری قوم کو ریاستی آگاؤں کے بناوٹی اور تصوراتی چمنی سے روشنی دکھانے کی نوید سنائی، کون سی جادوئی چھڑی مل گئی کہ وہ راتوں رات بلوچستان کے مسائل حل کرنے پر پراُمید ہیں۔

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں آج حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ایک عام بلوچ اپنے گھر میں محفوظ نہیں اس گھمبیر صورتحال میں بلوچ قوم گھروں میں اپنی دفاع کررہے ہیں، بلوچستان کے وسیع و عریض علاقوں میں بلوچ نوجوانوں میں اور لواحقین میں پرامن جدوجہد ختم ہونے کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جس بلوچ نوجوان نے حقیقی شعور پایا اُسے شہید کردیا گیا یا پاکستانی اذیت خانوں میں صعوبتیں برداشت کررہے ہیں جبکہ جس نے مادیت پسندی کا مظاہرہ کیا وہ بیوروکریٹ کی صورت میں پاکستانی کرپٹ سیاسی نظام کا حصہ بنے اور آرام پسندی بد عنوانی، لالچ، مصلحت پسندی، عیش و عشرت کا شکار ہوکر اپنے قومی فرائض و ذمہ داریوں سے دور رہے ان میں کچھ ایسے نوجوان بھی ہیں جو اپنے طالب علمی کے زمانے میں انقلابی رہنماؤں کے آستانے میں رہے مگر آج لالچ، خوف، آزاد خیالی اور عیش و نوش کے خمار میں ڈوب کر اپنے شہداء کی قربانیوں، بلوچ ماؤں اور بہنوں کی آنسوؤں، چھوٹے بچوں کی آہ و زاری اور بلوچ غیرت کو پس پشت ڈال گئے ہیں۔