انسانیت یا سرمایہ کاری – گاجیان بلوچ

309

انسانیت یا سرمایہ کاری

تحریر: گاجیان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی مختلف کہانیاں سن اور پڑھ کر انسانی سوچ ایک حقیقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا، کیوں نہیں پہنچ سکتا یہ ایک الگ بات ہے؟ کیونکہ جو چیز انسان نے اپنے آنکھوں سے نہیں دیکھا اس پر یقین کرنا میرے خیال میں ایک اند بسواشی ہے۔

میں بذات خود کتابی علم کو ایک طرف رکھتا ہوں جو لوگ زندگی میں مسلسل کھٹن حالتوں سے گذر رہے ہیں، اس زندگی سے سیکھ رہے ہیں اور عمل کر رہے ہیں- ہر کسی کا اُستاد اُسکی زندگی ہے- بذات خود میرا اپنا رائے یہی ہے، ہوسکتا ہے کہ میں دوسرے لوگوں کی علم کے مطابق غلط ہوں۔ لیکن میرا ذاتی رائے یہی ہے کہ انسان جو کچھ بھی سیکھنے کی کوشش کرے وہ اپنے زندگی سے سیکھ سکتا ہے اس پر عمل پیرا ہوسکتا ہے-

میں جو سمجھوں، میں جو جانوں، میرے خیالات الگ ہیں لیکن میرے خیالات کسی خواب یا کوئی کہانی کی بات نہیں ہیں، نا کے میں کتابی الفاظ کو بیان کر رہا ہوں- بلکہ یہ ایک حقیقی سچائی ہے جو مظلوم اقوام کے ساتھ ہو رہا ہے-

اس دنیا کی حقیقت کو بیان کرنا یا اس کو ایک تحریری شکل دینا یا کتابی شکل میں کسی شاعر کی غزل کسی سائنسدان یا کوئی مولوی، سیاستدان بیان نہیں کرسکتا ؟ اب میں آتا ہوں اپنے اصل موضوع پر… انسانیت یا سرمایہ داری؟

کچھ حقیقت ہیں جو سب واضح طور پر سامنے دیکھنے کو ملتے ہیں، جہاں سچائی بھی ہے اور جوٹ بھی، کچھ ایسی باتیں ہیں جو انسانی سوچ نے اپنے لئے فائدے کے بنیاد پر استعمال کئے ہیں اور استعمال ہو رہے ہیں-

لیکن یہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ جو الفاظ خدا ہی کے صفت ہیں ان الفاظ، ان مثالوں کو انسانی صفت کہنا ایک غلیظ ایک جہالت اور نا پختگی کے سوا اور کچھ نہیں، جو انسان اپنے لئے استعمال کرتے ہیں وہ الفاظ میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں۔

مثال کے طور پر انصاف، ایمان، سچائی، حقیقت، برابری یہ چند الفاظ ہیں جو آپ اس کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، لیکن یہ سوچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، کیونکہ سوچ ہو تو کچھ پاسکتے ہیں، اگر آپ نے کچھ نہیں پایا تو آپ اس بات کو مان لیں گے آپ کے اندر سوچ نہیں، نہ کہ جہالت کے بنا پر ہر بات ٹال مٹول کرکے نظر انداز کرنا- اس سے آپ مذید نقصان اٹھانے والے ہو-

(انسانیت)
یہ الفاظ کس نے ایجاد کیا اور کیوں؟ اس کے معنی کیا ہیں؟ اور جو کچھ بیان ہوا اس الفاظ کے بارے میں کیا یہ سچائی ہے؟ کیا یہ حقیقت ہے؟ اور اس سچائی کو ماننے والے یا اس کو بیان کرنے والے کون ہیں؟ ان کا کردار کیا ہے؟ یا یوں کہیئے کہ اس لفظ کو خدا نے واضح طور پر آپ کو بتایا یا پیغام کیا ہے کہ قرآن پاک کے ذریعے، پیغمبر کے ذریعے جو ہم نے سنا اس لفظ کے بارے میں، کیا یہی سچائی ہے؟ کہ انسان اس دنیا کا ایک عظیم ہستی ہے- ہم نے یہ سنا ہے کہ اگر انسان نہ ہوتا تو یہ دنیا وجود میں نہیں آتی- خدا کی طرف سے انسان اشرف المخلوقات کی لقب سے نوازا گیا ہے- انسانی دماغ کو وسیع بنایا گیا ہے- اس دماغ کو اتنا وسیع بنایا گیا ہے کہ کبھی نہیں برجاتا اور اس کو اتنا وسیع بنایا کہ لاکھوں خواہشیں اسی دماغ کے اندر موجود ہیں- خواہشات کبھی نہیں رُکتے، ہر وقت کچھ نا کچھ پانے کی حوس میں ہوتے ہیں-

کیا یہ حقیقت ہے کہ اسی چہرے کے تصویر کو انسان کہتے ہیں؟

“انسانیت کے نام پر سرمایہ کمانے والوں کو انسان کہتے ہیں” کیا یہ قبول کرنے والے لوگ انسان ہوتے ہیں؟ کیسے یہ مان لوگے تم؟ کیا یہاں سب جاہل ہیں؟ جس کے سودے لگتے ہیں کیا یہاں سب مجبوری کی حالت میں خاموش ہیں؟ کیا کسی کو اس بات کا علم نہیں؟ اگر علم نہیں، کیا آنکھ بھی نہیں جو دیکھ سکے، کان نہیں جو سن سکے، احساس نہیں جو محسوس کرسکے، دل نہیں جس میں درد ہو، اگر درد ہے تو اس درد کی آہ کیوں نہیں؟

دنیا جب سے شروع ہوتا ہے اس کے آخر تک خدا انسان کو اپنے عظیم کتاب قرآن مجید کے ذریعے کہتا ہے کہ اے انسان تم خسارے میں ہو-

آخر کیوں ایسا کہتا ہے؟ کیونکہ انسان کو سمجانے کی کوشش کرتا ہے- کیا آپ اتنا بھی نہیں جانتے ہیں کے ایک باپ، ایک ماں اپنے اولاد کو سمجانے کی کوشش کرتے ہیں؟ اس وقت جب اس کے اولاد نادان، ناسمجھ، جاہل ہو، جو اپنے ماں باپ کی بھی عزت نہیں کرتے، میں آپ کو نہیں سمجھا سکتا ہوں، جب تک آپ خود نہیں سمجھنا چاہتے ہیں-

یہ انسان انسانیت کے نام پر سودا لگا رہے ہیں- جب دس لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو وہ سو آدمی کا سودا کرتے ہیں، جب سو آدمی جمع ہوتے ہیں تو وہ ہزاروں لوگوں کا سودا کرتے ہیں، جب ہزاروں لوگ جمع ہوتے ہیں تو وہ لاکھوں لوگوں کا سودا کرتے ہیں، جب لاکھوں لوگ جمع ہوتے ہیں تو وہ کروڑوں لوگوں کا سودا کرتے ہیں- اس طرح اس دنیا میں انسان انسانیت کے نام پر سودا بازی کرتا چلا آ رہا ہے-

کیا بلوچ قوم کو نہیں معلوم کہ 70 سالوں سے پاکستان ہمارا سودا کرتا چلا آ رہا ہے اور اس سودے میں کچھ نشانیاں ہیں- چند سوداگر بلوچ قوم سے جڑے ہیں جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے اپنی قوم کا سودا کررہے ہیں-

جی ہاں میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا سودا نہ ہو آپ کی قوم کا سودا نہ ہو تو آپ کو انقلاب کے ذریعے اپنے سرزمین کی دفاع کرنی ہوگی اور اپنے لوگوں کو جمع کرنا ہوگا ایک حقیقی نتیجے پر پہنچانے کے لئے اپنے قومی طاقت کا استعمال کرنا ہوگا-

دنیا آپ کی نہیں سننے والا کیونکہ یہی ہیں خریدار، پانچ سو سال قبل پرتگالی سمندر کے راستے گوادر آئے تھے- وہ یہاں سیر و تفریح کے لئے نہیں بلکہ ایک منصوبے کے تحت حملہ آور ہونے آئے تھے، جس کا سامنا آپ کے حمل جیئند نے کیا تھا-

آج دنیا کی سیاست تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آپ کو صرف ایک ریاست کی شکل بچا سکتی ہے اور کچھ نہیں- وقت و حالات کو نظر انداز کرنا آپ کی شخصیت اور قومی شناخت کے لئے نقصان کا باعث بن سکتی ہے-

ابھی وقت و حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے- یہ نا ہو کہ کل بلوچ قومی تاریخ بس ریڈ انڈین کی طرح کتابوں میں درج ہو- یہ ایک حقیقت اور سچائی ہے کہ جب تک قومیں یکجہتی کا اظہار نہ کریں، منزل تک پہنچنے کی خواہش ایک بے تعبیر خواب ہوگی اور کچھ نہیں-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔