دلو یار – بہرام کردی

180

دلو یار

بہرام کردی

دی بلوچستان پوسٹ 

مقصد پر کمٹمنٹ اور اس کمٹمنٹ پر ثابت قدم رہ کر مشکلات کو خندہ پیشانی سے قبول کرکے اسی پر ڈٹے رہ کر چلتے ہی رہنا اور ہر مشکل کو اپنا نصیب سمجھ کر اسے مسکراکر قبول کرنے والے ہی حقیقی ہیرو ہوتے ہیں، جو کسی بھی مقصد پر کار بند ہوکر اسی میں بازی لگا دیتے ہیں، اس حد تک کے وہ پیچھے مڑ کر نہیں سوچتے، وہ کمٹمنٹ کر چکے ہیں انہیں معلوم ہے جو آنے والا ہے، شاید وہ اسکے بعد اسکے لیئے اسکے خاندان کے لئے کئی مشکلات پیدا کر سکتا ہے، پر وہ ڈٹے رہنے والے ہیں وہ سپاہی ہیں اور بازی لگاکر گذر جاتے ہیں۔

ایسے دوست جو اجنبی بن کر زندگی میں آجاتے ہیں اور اپنا بناکر گذر جاتے ہیں، وہ ایک فاصلہ طے کرکے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں تک اتے ہیں کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ وہ اس غلامی کے خلاف کھڑے ہونے والے ان سپاہیوں میں سے ایک ہیں، جو پہلے بھی آئے تھے اور جان دیکر گذر گئے اور کل بھی آئینگے اور یہ راستہ فیصلہ کن ہے، یہاں رک کر انتظار کرنے والے یا تو تھک جاتے ہیں یا بھٹکائے جاتے ہیں۔

ایسے ہی ایک وطن زادے سے بولان کے دامن میں ملاقات ہوا، جو دیکھنے میں کمزور بدن تھا پر حوصلے ایسے کے چلتن بھی ذرہ برابری نہیں کر پائے، لمبی ناک خوبصورت آنکھیں بھورے بال، ہنس مکھ اور مذاقیہ نوجوان جس میں خصلتیں اور صلاحیتں کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، وہ شروعات میں ہی لبھا گیا۔ اسے دیکھ کر انسان خود کو اسکے گرفت میں محسوس کرتا کیونکہ وہ ایسے شفقت سے دلیلیں دیتا کہ آگے سوال کرنے کی جو ضرورت ہوتی، وہ اس پر ایک بھروسہ بن کر دم توڑ دیتا۔ اس کی جہد ایک یقینی عمل اور اسکا ساتھ ایک حقیقی ہمراہی کا ارادہ پیدا کردیتا تھا۔

میں دلجان سے جس وقت ملا اس وقت تک اس نے کئی نشیب فراز دیکھے تھے، دوستوں کا بچھڑنا اپنوں کی قربانی یہاں تک کے اپنے ماموں کے لاش کو کئی راتوں تک کندھوں پر لیئے سفر کرتا رہا ہے، اس نے اپنے یار اور بہت پیار کرنے والے بھائی کی واپسی کے راہ تکتے سوراب کے گلیوں میں خواب بنتے دیکھا تھا لیکن جو جوان مردی اور حوصلہ ایک باشعور پڑھے لکھے نواجون کے طور پر اس کے اندر موجود تھا، وہ یہاں رکنے والوں میں سے نا تھا اور وہ یوں نکل گیا اتنی دور کے پھر کبھی لوٹا نہیں۔

اج بھی جب کبھی پہاڑوں میں کہیں سفر کا اتفاق ہو تو ایسے محسوس ہوتا ہے کے ضیاء ہمارے ساتھ چاند کے شکل میں سفر کررہا ہے، وہ ہمیں جس طرح سے ایک استاد بن کر درس دیتا تھا اج ایک روشنی بن کر راستہ دکھا رہا ہے کیونکہ آج میرے ارد گرد اکثر ایسے لوگ ہیں جو دلجان کے محفل کے بعد قربانی کا جزبہ لیکر پہاڑوں کا رخ کرچکے ہیں، وہ اتنے ضیاء بنا کر گیا کے کبھی محسوس نا کر پاؤ کے ضیاء اب نہیں رہا، وہ استاد وہ غمخوار وہ مہربان آج بھی میرے اور ہر اس دوست کے راہ میں چراغ بن کر روشنی کررہا ہے جو اسکے مقصد پر کاربند ہیں، جنہوں نے آخری گولی کا فیصلہ کیا ہوتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔