سعودی عرب نے دو ہفتوں تک عالمی طور پر شدید بحرانی صورت حال کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر اعتراف کر لیا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب نے ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العسیری اور شاہی عدالت کے میڈیا ایڈوائزر سعود القحطانی کو برطرف کردیا، جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے بہت قریبی ساتھی تھے۔
سعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود المجیب کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر ‘بحث’ کے بعد ہونے والے جھگڑے میں مارا گیا، تاہم انہوں نے صحافی کی لاش کے حوالے سے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
شیخ سعود المجیب نے کہا کہ ‘ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کی ملاقات کرنے والے فرد کے ساتھ بحث ہوئی جو جھگڑے میں بدل گئی اور شہری کے ساتھ لڑائی میں وہ مارے گئے’۔
رپورٹس کے مطابق سعودی حکام نے ڈپٹی انٹیلی جنس چیف اور میڈیا ایڈوائزر کی برطرفی کے علاوہ 18 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے صحافی کے قتل کے اعتراف کے بعد امریکا نے اپنے ردعمل میں افسوس کا اظہار کیا لیکن اپنے قریبی اتحادی کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا سینڈرز کا کہنا تھا کہ ‘امریکا، سعودی عرب کی جانب سے معاملے کی تفتیش اور مشتبہ افراد کے خلاف کی گئی کارروائی کے اعلان کو تسلیم کرتا ہے’.
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اس اندوہناک واقعے کی عالمی تفتیش کو قریب سے دیکھیں گے اور وقت پر شفاف اور ضابطے کے مطابق انصاف کی حمایت کریں گے’۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے بیان میں ‘گہرے دکھ’ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ذمہ داروں کے خلاف بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے’۔
خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گذشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔
ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قنصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
سعودی حکام نے ترک ذرائع کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمال خاشقجی لاپتہ ہونے سے قبل قونصل خانے کی عمارت سے باہر جاچکے تھے۔
تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد ایک ہفتے سے غائب ہیں۔
اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا کہ سعودی صحافی، شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ خاشقجی کی صحافت سعودی حکومت کے لیے بڑا خطرہ نہیں تھی لیکن ان کے خفیہ ایجنسی کے ساتھ تعلقات تھے جس کی وجہ سے انہیں بعض اہم معاملات سے متعلق علم تھا۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دھمکی آمیز بیان میں کہا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔
17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔
اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔
ترک قدامت پسند اخبار ’ینی شفق‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے وائس ریکارڈنگ سنی ہے جس میں جمال خاشقجی کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنا جا سکتا ہے اور پہلے ان کی انگلی کاٹی گئی بعدازاں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 7 منٹ کے اندر جمال خاشقجی کی موت واقع ہوگئی، انہیں سعودی قونصلر کے دفتر کے برابر میں موجود لائبریری میں لایا گیا اور اسٹڈی ٹیبل پر لٹا کر کوئی بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا جس کے بعد ان کی آوازیں بند ہوگئیں۔
ترک اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی جنرل سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ میں فرانزک شواہد کے ہیڈ صلاح محمد الطوبیغے نے مبینہ طور پر ان کے جسم کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنا شروع کیا تھا۔
بعد ازاں سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے ‘قربانی کا کوئی بکرا’ ڈھونڈ ہی لیں گے۔