30اگست کو عالمی یومِ جبری گمشدگان کے حوالے سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے گمشدہ خاندانوں کے افراد نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس منعقد کیا۔
پریس کانفرنس سے 28جون2009کو لاپتہ ہونے والے سیاسی رہنماء اور میڈیکل آفیسر ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمیّ نے خطاب کیا۔ اس موقع پر لاپتہ اسٹوڈنٹ رہنماء زاہد بلوچ، شبیر بلوچ اور رمضان بلوچ کے خاندان بھی ہمراہ تھے۔
سمیّ بلوچ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا بھر میں لاپتہ افراد کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ اس روز اپنے عہد کی تجدید کرتی ہے کہ وہ جبری گمشدگی کے واقعات کی روک تھام کے لئے کردار ادا کرے گی۔ لیکن ہم سمیت بلوچستان کے ہزاروں خاندانوں کے لئے اقوام متحدہ کے یہ دعوے تب تک کوئی معنی نہیں رکھیں گے، جب تک کہ اقوام متحدہ اپنے رکن ملک کی غیر قانونی تحویل میں موجود ہمارے پیاروں کی بازیابی کے لئے کردار ادا نہ کرے۔ ہمارے لئے اس تکلیف کو بیان کرنا بہت مشکل ہے جسے ہم محسوس کرتے ہیں، ایسے لفظ ابھی تک ایجاد نہیں ہوئے ہیں جو لاپتہ شخص کے خاندان کی تکالیف کو بیان کرسکیں۔
سمیّ بلوچ نے کہا کہ میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو آج سے 8سال پہلے 28جون 2009کو خضدار کے علاقے اورناچ میں انکے دفتر سے فورسز کے اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔ ڈاکٹر دین محمد بلوچ ایک سرکاری آفیسر ہیں جسے ڈیوٹی کے دوران سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اُٹھا کر لاپتہ کردیا۔ ڈاکٹر دین محمد کی اغواء کا ایف آئی آر میں نے اورناچ تھانے میں درج کی، بلوچستان ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کروائی، اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی والد کی بازیابی کے لئے حاضری دیتے رہے ۔کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک میں نے دیگر خاندانوں کے ہمراہ طویل ترین لانگ مارچ میں حصہ لیا، لیکن اس کے باوجود8سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی والد کی سلامتی و زندگی کے حوالے سے خاندان کوکوئی خبر نہیں ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح زاہد بلوچ کو آج سے چار سال قبل، 18مارچ 2014کو ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے دن دیہاڑے کوئٹہ کے بھرے بازار سے اغواء کرلیا، اغواء کی ایف آر زاہد کی خاندان نے درج کروائی، عدالتوں میں پیش ہوئے، لیکن اُن کی بھی کوئی خیر خبر نہیں۔ زاہد بلوچ ایک اسٹوڈنٹ رہنماء ہیں، پاکستانی آئین تمام شہریوں کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی موقف کا اظہار کریں، لیکن اس کے باوجود اگر زاہد کی سرگرمیوں سے سیکیورٹی کے اداروں کو کوئی اعتراض ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے، عدالتوں میں پیش نہ کرنا خود اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ مغوی کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں۔کم عمر نوجوان شبیر بلوچ بی اے کا ایک اسٹوڈنٹ ہے، ضلع آواران کا رہائشی ہے، اسے 4اکتوبر 2016کو ایف سی نے 25دیگر افراد کے ساتھ کیچ سے اغواء کرلیا، شبیر بلوچ کے ساتھ اغواء ہونے والے باقی افراد بعد میں رہا ہوگئے لیکن شبیر کا اب تک کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔
سمیّ بلوچ نے کہا کہ ہم سمیت بلوچستان کے ہزاروں لاپتہ خاندان اپنے پیاروں کی بازیابی کی جنگ خود لڑ رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار ادارے، ہیومین رائٹس ایکٹوسٹ، سول سوسائٹی کے کارکنوں اور میڈیا کی بھڑک بازیاں اُن ایشوز تک محدود ہیں جہاں انہیں ریٹنگ ملتی ہے۔ چونکہ بلوچستان سے لاپتہ کیے جانے والے افراد کی گمشدگی کازمہ دار براہ راست سیکیورٹی کے ادارے ہیں، اس لئے مذکورہ لوگوں و اداروں سے وابستہ لوگ اس معاملے پر خاموش ہیں۔ ان لوگوں کو میلوں دور لوگوں کی تکالیف تو سنائی دیتی ہے، جو یقیناًقابلِ ستائش عمل ہے، لیکن بلوچستان کے اُن ماؤں، بیٹیوں کی آہیں سنائی نہیں دیتی ہیں جو سالوں سے غائب لختِ جگرکی گمشدگی سے نکلتی ہیں۔ میری چھوٹی بہن مہلب بلوچ پچھلے آٹھ سالوں سے پریس کلبوں کے سامنے اپنے بابا کی بازیابی کے لئے اُن کی تصویر لئے بیٹھی ہوئی ہے۔ چھوٹی بچی کا اسکولوں اور اپنے دیگر ہم عمروں کی طرح گھروں میں پرورش پانے کے بجائے اسکی بچپن پریس کلبوں میں احتجاج کرتے اور والد کی بازیابی کی امید لگانے میں گزررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم لاپتہ افراد کی عالمی دن کی منا سبت سے اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے قول کی پاسداری کریں۔ بلوچستان کے لاپتہ افراد کے خاندان پاکستان کی عدالتوں کا چکر لگاتے لگاتے مایوس ہو چکے ہیں۔ ہمیں اب کوئی امید نہیں ہے کہ ان عدالتوں میں پیشی سے ہم اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ ہماری امیدیں عالمی اداروں سے بندھی ہوئی ہیں کہ وہ بلوچ لاپتہ سیاسی رہنماؤں، نوجوانوں و بزرگوں کی بازیابی کو ممکن بنانے کے لئے کردار ادا کریں۔