شہید بابا سفر خان کی کچھ یادیں – شئے رحمت

603

شہید بابا سفر خان کی کچھ یادیں

تحریر : شئے رحمت

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں ہیرو وہی مانے جاتے ہیں، جنہوں نے اپنی قوم کیلئے ہر طرح کی قربانی اور سختی برداشت کی ہے۔ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کیلئے کچھ کرنا ہے۔ اپنے لئے تو ہر کوئی کرتا ہے، لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں جو دوسروں کیلئے جینا سیکھتے ہیں۔ وہی لوگ یاد کیئے جاتے ہیں، جنہوں نے آنے والی نسلوں کیلئے اپنی زندگی قربان کی ہے۔ عظیم لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنی قوم کیلئے ہر خوشی قربان کرکے غم برداشت کرلیتے ہیں۔ شہید سفر خان نے بھی اپنے جان کا نذرانا پیش کیا۔

شہید سفر خان یہ کبھی ماننے کو تیار نہیں تھے کہ جو ہمارے ساتھ ہورہا ہے، وہ ہمارے فرزندوں، ہماری آنے والی نسلوں کے ساتھ بھی ہو۔ شہید سفر خان ایک ٹیچر تھے۔ آپ بہت محنت سے اپنے قوم کے بچوں کو پڑھاتے تھے۔ ڈاکٹر اللہ نظر کو پڑھانے میں شہید سفر خان کا اہم کردار رہا ہے، کیونکہ ڈاکٹر کے والد فوت ہوچکے تھے۔ شہید سفر نے باپ کا کردار ادا کیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو پڑھایا، لکھایا، سوچنا سکھایا اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا سکھایا۔ ڈاکٹر اور اس کے سب سے چھوٹے بھائی علی نواز گوہر جب کراچی سے اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت پاکستانی آئی ایس آئی اور دیگر فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، تب شہید سفر خان نے اپنے بھائی اور اس کے دوستوں کی تلاش میں دن رات ایک کردی۔ ہر وہ انسانی حقوق کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس سے انسانیت کا امید رکھا جاتا تھا۔ لیکن کسی نے سنا نہیں اور شہید نے بھی ہمت نہیں ہارا۔ پنجاب سے لیکر کوئٹہ کراچی تک جاتے رہے، جب تک کہ ڈاکٹر اللہ نذر اپنے ساتھیوں سمیت بازیاب نہیں ہوئے۔ شہید نہ صرف اپنے بھائی کےلیئے یہی سوچتے تھے بلکہ پوری قوم کی خیر خواہ تھے اور چاہتے تھے کہ بلوچ قوم کا ہر وہ نوجواں بازیاب ہوجائے جن کو ظالم بزور بندی بنایا ہوا ہے۔ وہ بے گناہ بلوچوں کی رہائی کیلئے بولتے رہے۔

قوم کو آج سفر خان جیسے فرزندوں کی ضرورت ہے۔ اس ملک پاکستان میں رہنا قابل قبول نہیں، کیونکہ بلوچستان اور بلوچوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ وہ چند سالہ پاکستان میں کیسے رہ سکتے ہیں۔ پاکستان ایک جھوٹ ہے، یہ انگریز کا بنائی ہوا دھوکا ہے، جس کو ہم کھا رہے ہیں۔ اس ریاست میں رہنا بلوچستان کے ساتھ غداری ہے۔ اگر اکیسویں صدی میں ہم کو پینے کا پانی میسر نہیں تو ہم لوگوں کو ایسے ریاست کے ساتھ رہنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہمارا وطن قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ جب سوئی سے گیس نکلتی ہے، تو وہ پنجاب جاکے پہنچ جاتا ہے۔ لیکن وہیں سوئی تک یا بلوچستان میں گیس نہیں ہے۔ اس سے برا اور کیا ہوسکتا ہے؟ وہاں امیر بلوچستان کے غریب بلوچ لکڑیاں جلا کر گذر بسر کرتے ہیں۔

شہید سفر خان اس جبر کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ پوری زندگی جد و جہد کرتا ہے۔ میہی میں جب قابض فوج پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیتا ہے تو وہ دشمن سے دو بدو لڑ کر کئی فوجیوں کو جہنم واصل کرکے سینے پہ گولیاں کھاکر گر جاتا ہے اور آخری وقت یہی کہتا ہے کہ آزاد بلوچستان زندہ باد ، پاکستان مردہ باد اور ہم سے ہمیشہ کےلئے جدا ہوجاتا ہے۔ وہ آج اگر جسمانی حوالے سے ہمارے درمیان میں نہیں لیکن اس کی سوچ اور اس کی فکر صدیوں تک زندہ رہیگی۔ اس کی قربانیوں کو ہزاروں سال تک یاد رکھا جائیگا۔