تربت: جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا حراستی قتل کے خلاف احتجاج

111

ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ ہونے والے دو نوجوانوں کے لواحقین کا پیاروں کی حراستی قتل کے خلاف احتجاج جاری ہے ۔

لواحقین کے مطابق، سیف اللہ کو 20 اپریل 2025 کو پاکستانی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا جبکہ 23 اپریل کو ان کے خاندان نے ڈپٹی کمشنر (DC) کیچ کے دفتر میں ان کی گمشدگی کی اطلاع دیتے ہوئے باضابطہ درخواست جمع کروائی، تاہم انہیں کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ 13 جون کو جب انہوں نے ایک بار پھر DC آفس سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ سیف اللہ 29 اپریل کو ایک مبینہ جھڑپ میں مارے گئے اور ان کی تدفین بھی ہو چکی ہے۔ تاہم تدفین کی جگہ ظاہر نہیں کی گئی۔

شاہجہان کو پاکستانی فورسز نے 14 اپریل 2025 کو حراست میں لیا تھا۔ ان کے اہلِ خانہ تقریباً دو ماہ تک ان کے بارے میں کسی بھی قسم کی اطلاع سے محروم رہے۔ 13 جون کو انہیں بھی یہی بتایا گیا کہ شاہجہان ایک مبینہ مقابلے میں مارے گئے اور انہیں دفنایا جا چکا ہے، بغیر اہلِ خانہ کو اطلاع دیے اور بغیر تدفین کی جگہ بتائے۔

دونوں خاندانوں نے ریاستی بیانیہ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے پیارے جبری گمشدگی کے بعد ریاستی حراست میں تھے اور انہیں ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔

خاندانوں کے ساتھ مقامی لوگ بھی اس وقت ڈپٹی کمشنر تُربت کے دفتر کے باہر پُرامن احتجاج کر رہے ہیں۔

وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں اپنے پیاروں کی قبریں دکھائی جائیں اور ان کی ہلاکتوں کے متعلق تفصیلات فراہم کی جائیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ماروائے عدالت قتل کو بلوچ نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم ان خاندانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ایک بار پھر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور حراستی ہلاکتوں سے متعلق شفافیت اور جوابدہی کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔