بلوچستان میں 35 حملے، 51 ہلاکتیں، 100 سے زائد زخمی، سوراب شہر پر بلوچ مزاحمت کاروں نے کنٹرول حاصل کی۔
اسلام آباد میں قائم “پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز” (PIPS) اور “پاکستان سینٹر فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز” (PICSS) کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق رواں سال مئی کے مہینے کے دوران پاکستان میں مسلح حملوں میں اضافہ دیکھا گیا جہاں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ بلوچستان رہا۔
بلوچستان کی صورتحال:
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز اور پاکستان سینٹر فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی جانب سے شائع کردہ اعداد شمار کے مطابق بلوچستان میں مئی کے دوران 35 مسلح حملے رپورٹ ہوئے جن میں کم از کم 51 افراد جانبحق اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔
ان رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مئی کے مہینے میں بلوچستان میں مسلح حملوں میں جانبحق ہونے والوں میں 30 عام شہری، 18 سکیورٹی اہلکار اور 3 حملہ آور شامل ہیں۔
ان رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اس دوران مسلح تنظیموں کی جانب سے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کم از کم 9 افراد کو اغوا کیے جانے کی اطلاعات بھی رپورٹ ہوئیں، جبکہ مئی میں خضدار میں آرمی پبلک اسکول کے بس پر حملے میں 8 بچیاں اور 2 فورسز اہلکار ہلاک جبکہ 35 دیگر زخمی ہوئے۔
دوسری جانب بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے حملوں پر رپورٹس مرتب کرنے والی سگار میڈیا گروپ کے مطابق مئی 2025 کے دوران صرف بلوچ لبریشن آرمی نے 111 سے زائد کارروائیاں کیں جن میں پاکستانی فوج کے 120 اہلکار ہلاک اور 53 سے زائد زخمی ہوئے۔
سگار میڈیا بلوچ آزادی پسندوں کے دعوؤں اور مقامی میڈیا سے موصول ہونے والے رپورٹس پر اپنی اعداد شمار شائع کرتی ہے۔
سگار میڈیا کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ضلع قلات، پنجگور، کیچ، اور کوئٹہ وہ علاقے تھے جہاں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کی جانب سے سب سے زیادہ کارروائیاں کی گئی۔
ایک بڑی پیش رفت میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر موجود سوراب شہر کو تین گھنٹوں سے زائد قبضہ کرکے وہاں موجود پولیس اہلکاروں سے اسلحہ ضبط کرنے، سرکاری بلڈنگز کو نذر آتش کرنے کا واقعہ شامل ہے جس میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ میں مئی کے شروع میں بلوچ لبریشن آرمی کے جنگجوؤں نے قلات کے قریب منگچر کے علاقے میں داخل ہوکر کئی گھنٹوں تک شہر میں موجود رہے اور اس دوران انہوں نے منگچر شہر میں نادرا آفس، جوڈیشل کمپلیکس، بینک اور دیگر سرکاری عمارتوں کا کنٹرول سنبھال کر سرکاری اسلحہ اور ریکارڈ اپنی تحویل میں لے لیا، اور بعد ازاں ان عمارتوں کو نذرِ آتش کر دیا۔
بی ایل اے سرمچاروں نے منگچر میں کوئٹہ کراچی شاہراہ پر گاڑیوں کی چیکنگ دوران لسبیلہ پولیس کے پانچ اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا جبکہ انھیں ہفتے بعد رہا کردیا گیا جبکہ منگچر و گردونواح میں پاکستانی فورسز کے کیمپس پر بھی شدید حملے کئے گئے۔
مئی کے آخر میں اور سوراب پر کنٹرول حاصل کرنے کے اگلے ہی روز بی ایل اے کے ارکان نے کوئٹہ کے قریب مستونگ میں ایک گھنٹے تک کوئٹہ کراچی شاہراہ پر گاڑیوں کی چیکنگ کرتے رہے جبکہ اس دوران ولی خان پولیس تھانہ اور ایک لیویز چوکی کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
مئی میں شہری ناکہ بندیوں، قبضے اور کنٹرول حاصل کرنے کے تین مختلف واقعات میں مذکورہ گروپ ملوث رہا ہے۔
پاکستان سینٹر فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق اسی طرح مئی کے دوران پاکستان بھر میں 85 شدت پسند حملے ہوئے جو اپریل کی نسبت 5 فیصد زیادہ ہیں۔
ان حملوں میں 113 افراد مارے گئے جن میں 52 سکیورٹی اہلکار، 46 عام شہری، 11 حملہ آور اور 4 امن کمیٹیوں کے ارکان شامل ہیں، زخمیوں کی تعداد 182 رہی جن میں 130 عام شہری، 47 سکیورٹی اہلکار، 4 حملہ آور اور 1 امن کمیٹی کا رکن شامل ہے۔
رپورٹس کے مطابق مئی میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 59 شدت پسند مارے گئے، 5 سیکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے، جبکہ سیکورٹی حکام نے 52 مشتبہ شدت پسند کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
مئی 2025 میں سیکیورٹی فورسز کی ہلاکتوں میں 73 فیصد اور عام شہریوں کے زخمی ہونے کی شرح میں 145 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اپریل کے مقابلے میں سکیورٹی فورسز کی کاروائیوں میں شدت پسندوں کی ہلاکتوں میں 68 فیصد کمی ہوئی جہاں آپریل میں سیکورٹی فورسز کی کاروائیوں میں 203 شدت پسند مارے گئے مئی میں یے تعداد 65 ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز اور پاکستان سینٹر فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی جاری کردہ اعداد شمار میں مجموعی طور پر 172 افراد ہلاک اور 194 زخمی ہونے کے رپورٹس شامل کئے گئے ہیں۔
بلوچستان کے بعد خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثر رہا جہاں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں 22 حملے، 45 ہلاکتیں، 23 سکیورٹی اہلکار، 12 عام شہری، 6 شدت پسند، 4 امن کمیٹی ارکان شامل ہیں جبکہ مجموعی طور پر 58 افراد زخمی ہوئے۔
اس کے ساتھ خیبر پختونخوا دیگر علاقوں میں 25 حملوں میں 14 ہلاکتیں ہوئے جن میں 10 سکیورٹی اہلکار، 2 عام شہری، 2 شدت پسند شامل ہیں اور مجموعی طور پر 24 افراد زخمی ہوئے۔
مئی 2025 میں سندھ میں ہونے والے 3 حملوں میں 3 ہلاکتیں ہوئے جن میں 2 عام شہری، 1 سکیورٹی اہلکار شامل ہے جبکہ پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر میں اس دوران کسی حملے کی اطلاع نہیں ملی۔
رپورٹس کے مطابق اس دوران سیکورٹی کاروائیوں میں پنجاب کے مختلف علاقوں میں 39 مشتبہ شدت پسند گرفتار کیے گئے۔
مزید برآں شمالی وزیرستان میں ایک کوآڈ کاپٹر حملے میں 4 بچوں کی ہلاکت پر عوامی احتجاج شروع ہوا۔
ریاستی اداروں کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ شدت پسندوں کی جانب سے ڈرون کے ذریعے کیا گیا، تاہم مقامی آبادی نے اس کاروائی میں پاکستانی فورسز کو ملوث قرار دیتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔
دریں اثناء مئی 2025 کی رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان بدستور ریاستی و غیر ریاستی تشدد کی لپیٹ میں ہے، بلوچ مسلح مزاحمتی گروہوں کی سرگرمیاں، خصوصاً بی ایل اے کی بڑھتی کارروائیاں اور سوراب جیسے علاقوں پر کنٹرول کا واقعہ، ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کررہی ہے۔
پاکستانی ریاستی ادارے بارہا دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچ مسلح گروہوں سمیت پاکستان میں کاروائی کرنے والے تنظیموں کو قابو میں رکھا گیا ہے، مگر اعداد و شمار اور زمینی حقائق ان دعوؤں سے متصادم نظر آتے ہیں۔