اگر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو ضبط نہ کیا گیا تو یہ بلوچ شہروں پر بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ بی ایس او آزاد

232

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے 28 مئی کو “یوم سیاہ” قرار دیتے ہوئے دنیاء کو خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر عالمی سطح پر کنٹرول نہ کیا گیا تو مستقبل میں یہ مہلک ہتھیار بلوچ شہری آبادیوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچ قوم کے خلاف ریاستی جارحیت اور تباہ کن پالیسیاں نئی بات نہیں بلکہ ان کی جڑیں 27 سال قبل اس وقت سے جڑی ہیں جب پاکستان نے خود کو ایٹمی ریاست قرار دیا، 28 مئی 1998 کو چاغی میں ایٹمی تجربات کر کے ریاست نے اپنے مذموم عزائم کا کھلم کھلا مظاہرہ کیا جہاں انسانی آبادی کے عین درمیان دھماکے کر کے خوف و ہراس پھیلایا گیا۔

بی ایس او آزاد کے مطابق یہ عمل نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھا بلکہ بلوچ سرزمین کو زہر آلود بنانے کی دانستہ کوشش تھی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی ہتھیار کسی بھی صورت میں انسانیت کے لیے مہلک ہیں اور ریڈیو تھراپی کے علاوہ ان کا ہر استعمال نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے تابکار شعاعیں نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں، اور ماحول کو بھی متاثر کرتی ہیں، 1998 کے دھماکوں کے بعد چاغی کی زمین بنجر ہو گئی مقامی آبادی کینسر، تھلیسیمیا اور دیگر مہلک بیماریوں کا شکار ہو گئی جب کہ اموات کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

بی ایس او آزاد کا کہنا ہے کہ ریاست ان نقصانات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی ان علاقوں میں علاج معالجے اور بنیادی سہولیات فراہم کر رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ نسل کشی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔

تنظیم کے مطابق 28 مئی کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بلوچوں کے خلاف ریاستی بربریت کی نئی لہر شروع ہوئی جو اب پورے بلوچستان میں پھیل چکی ہے ماورائے عدالت قتل، اجتماعی قبریں، مسخ شدہ لاشیں، جبری گمشدگیاں، اور آبادیوں کا زبردستی خالی کرانا ان ہی پالیسیوں کا تسلسل ہیں۔

بی ایس او آزاد نے بلوچ عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کریں اور اپنی بقاء و آزادی کے لیے منظم جدوجہد کا حصہ بنیں ساتھ ہی عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو قابو میں لانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے، بصورت دیگر یہ ہتھیار کل کو بلوچ شہری آبادیوں پر بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔