پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جو جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کو سنے۔ماما قدیر بلوچ

52

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5671 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر تنظیم کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے مختلف وفود کو بلوچستان میں انسانی حقوق بالخصوص جبری گمشدگیوں کی صورتحال سے آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا دسمبر کے مہینے میں ایمنسٹی اںٹرنیشنل کی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا تاہم محض لفظی مذمت کافی نہیں عالمی اداروں کو پاکستان کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کے بارے میں سوچنا ہوگا۔

انھوں نے کہا عالمی ادارے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں جو اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان کی ریاستی ادارے عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں۔مگر کوئی ایسا ادارہ نہیں جو اس کا اعتراف کرئے یا جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی آوازوں پر کان دھرے۔

ماما قدیر نے زور دیا کہ عملی اقدامات کے بغیر بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر نہیں ہوسکتی۔ انسانی حقوق کے اداروں کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ریاستی اداروں کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے موثر طریقے سے دباؤ میں لانا ہوگا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ میں نورالدین ، لعل جان ، وہاب اور دیگر نے شرکت کی اور جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اور وی بی ایم پی کی جدوجہد سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا۔