سی ٹی ڈی کے ذریعے نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتا کیا جا رہا ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان

127

جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر اور رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے تربت پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے مسائل اور ریاستی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے رکھوالوں کو 85 ارب روپے دیئے جاتے ہیں لیکن یہاں کی بدحالی کی ذمہ داری بھی انہی پر ہے۔ اس خطے کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں، اور امن و امان کی صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔

مولانا نے لاپتا افراد کے مسئلے کو بلوچستان کا سب سے بڑا بحران قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے ذریعے نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور اگر وہ مجرم ہیں تو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

بارڈر کاروبار کی بندش کو عوام کے ساتھ زیادتی قرار دیتے ہوئے مولانا ہدایت نے کہا کہ مکران کے لوگ صدیوں سے بارڈر پر کاروبار کرتے آئے ہیں۔ ٹوکن نظام کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ لوگوں کے درمیان تنازع پیدا کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بارڈر کے تمام کراسنگ پوائنٹس کھولے جائیں۔

مولانا ہدایت نے کہا کہ گوادر میں ٹالر مافیا کو لگام دی جائے کیونکہ سمندری وسائل کا بے دریغ استحصال ہو رہا ہے، جس سے ماہیگیروں کی زندگی متاثر ہے۔ انہوں نے عسکری قیادت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تبادلوں اور تقرریوں میں ان کی مداخلت نے معاملات کو پیچیدہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان میں اپنے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے، اور ہمیں عوام کے مفادات کو مقدم رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ سیاستدان ہی مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور عسکری قیادت کو اپنے مقررہ حدود میں رہنا چاہیے۔

مولانا ہدایت نے کہا کہ اسلام آباد حکومت بلوچستان کے ساتھ تعصب کا مظاہرہ کرتی ہے اور یہاں کے عوام کو برسر روزگار نہیں ہونے دیا جاتا۔ بارڈر تجارت کے حوالے سے قومی خزانے کو نقصان پہنچنے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرتاپور بارڈر پر شناختی کارڈ کے ذریعے تجارت کی جا سکتی ہے تو بلوچستان کے بارڈر پر کیوں نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم پہاڑوں پر جانے کے بجائے پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم، اگر حالات ایسے ہی رہے تو نوجوان سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں گے۔ مولانا نے زور دیا کہ قوم کے وسائل کو قوم پر خرچ کیا جائے اور مسائل کے حل کے لیے سیاسی قیادت کو مضبوط بنایا جائے۔