دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے ساتھ تجارت نہیں ہو سکتی، انڈین وزیر خارجہ کا ایس سی او اجلاس سے خطاب

151

اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 23واں اجلاس کے تیسرے روز انڈیا کے وزیرخارجہ ڈاکٹر جے شنکر کی تقریر کے دوران پاکستان میں ٹی وی چینلز پر آڈیو تو سنائی نہیں دی تاہم ایکس پر شئیر کیے گئے اپنے بیان میں انھوں نے انڈیا کے بیانیے کے چند نکات شئیر کیے ہیں۔

ڈاکٹر جے شکر کا کہنا ہے کہ ہم مشکل وقت میں مل رہے ہیں جب دنیا میں دو بڑے تنازعات جاری ہیں اور کووڈ جیسی وبا نے ترقی یافتہ ممالک کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ شدید موسمی حالات، سپلائی چین کی غیر یقینی صورتِ حال اور مالیاتی عدم استحکام ترقی کی راہ میں حائل ہیں اور قرض کا بوجھ ایک سنگین مسئلہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آج کی تیزی سے بدلتی ہنگامہ خیز دنیا میں شنگھائی تعاون تنظیم کو اس قابل ہونا چاہیے کہ ہمیں درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔

جے شنکر کا کہنا ہے کہ اس کا جواب ہماری تنظیم کے چارٹر میں موجود ہے۔ ایس سی او کا مقصد باہمی اعتماد، دوستی اور اچھی ہمسائیگی کو مضبوط بنانا ہے۔ جے شنکر کا کہنا ہے چارٹر میں چیلنجز واضح ہیں اور وہ تین ہیں: دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی۔

ان کا کہنا ہے کہ ان حالات میں ہمیں ایماندارانہ گفتگو کی ضرورت ہے، اگر اعتماد کی کمی ہے یا تعاون ناکافی ہے، اگر دوستی میں کمی ہے اور اچھی ہمسائیگی کہیں ناپید ہو چکی ہے تو یقیناً خود احتسابی کی ضرورت ہے۔

انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا ہے کہ اگر سرحد پار دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی جیسی سرگرمیاں جاری رہیں گی تو ایسے ماحول میں تجارت، توانائی اور باہمی رابطے کا فروغ ناممکن ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ عالمگیریت اور ری بیلینسنگ ایسی حقیقتیں ہیں جن سے فرار ممکن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایس سی او ممالک کو اس حوالے سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

جے شنکر کا کہنا ہے کہ ہمارے بیچ تعاون، باہمی احترام اور خود مختاری کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے، ہمیں ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے، یہ تعاون حقیقی شراکت داری پر مبنی ہو نہ کہ یک طرفہ ایجنڈوں پر۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم تجارت اور ٹرانزٹ کے متعلق اپنی اپنی مرضی کے فیصلے لیں گے تو ایس سی او ترقی نہیں کر سکتی۔

جے شنکر کا کہنا ہے کہ صنعتی تعاون سے مسابقت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔