بنگلہ دیش میں ڈھائی ہزار گرفتاریاں, امریکہ کی جانب سے ’شوٹ آن سائٹ‘ کے احکامات کی مذمت

144

اے ایف پی کے اعداد وشمار کے مطابق، بنگلہ دیش میں ملازمتوں کے کوٹے پر ہونے والے احتجاج کے دوران گرفتاریوں کی تعداد منگل کے روز 2,500 سے تجاوز کر گئی ہے۔

ایف پی کی ایک اور گنتی کے مطابق پولیس اور اسپتالوں کی طرف سے اطلاع دی گئی متاثرین کی تعداد کے مطابق، کم از کم 174 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں کئی پولیس افسر بھی شامل ہیں۔

بنگلہ دیش میں مظاہرین کی ہلاکتوں کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کے روز ایک پریس بریفنگ میں بنگلہ دیش میں جاری مظاہروں پر ایک سوال کے جواب میں کہا،”ہم بنگلہ دیش میں تشدد کی تمام حالیہ کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں اور پرامن اجتماع کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہیں۔”

انہوں نے شوٹ آن سائٹ (موقع پر گولی مارنے) کے احکامات کی مذمت کرتے ہوئے ان کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

میتھیو ملر نے مزید کہا” ہمیں ملک بھر میں ٹیلی کمیونیکیشن میں جاری خلل کی خبروں پر تشویش ہے جس سے امریکی شہریوں سمیت بنگلہ دیش میں لوگوں کی اہم معلومات تک رسائی کی صلاحیت محدود ہوتی ہے، حکومت انٹرنیٹ سروس بحال کرے”

گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شیخ حسینہ کے دور حکومت کی بدترین بدامنی میں سرکاری ملازمتوں کے لیے داخلے کے کوٹے کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے۔

اگرچہ اب بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر نظم و ضبط بحال کر دیا گیا ہے، سڈنی میں مقیم بنگلہ دیشی سیاست کے ماہر مبشر حسن نے اے ایف پی کو بتایا کہ کریک ڈاؤن حکومت کے عالمی امیج کو مزید داغدار کر دے گا۔

انہوں نے مزیدکہا “اسے ایک ایسی حکومت سمجھا جائے گا جو مظاہرین، اپنے شہریوں کو گولی مارنے کے لیے اپنی سیکیورٹی فورسز کا استعمال کرتی ہے”۔

احتجاج کی تازہ صورتحال

اس احتجاج کے بعد کرفیو لگا دیا گیا اور پورے ملک میں فوجی تعینات کر دیے گئے۔ ملک بھر میں انٹرنیٹ بلیک آؤٹ نے معلومات کے بہاؤ کو بڑی حد تک محدود کر دیا ہے۔

مظاہروں کی قیادت کرنے والے طلبہ گروپ نے پیر کو اپنے احتجاج کو 48 گھنٹوں کے لیے معطل کر دیا، اس کے رہنما کا کہنا تھا کہ وہ “خون کی قیمت پر” اصلاحات نہیں چاہتے۔

احتجاج کی قیادت کرنے والے طالب علم ناہید اسلام نے، جنہوں نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ انہیں اپنی جان کا خدشہ ہے، منگل کی شام کو اس تعطل میں مزید 48 گھنٹے کا اضافہ کرکے اسے جمعہ تک بڑھا دیا۔

فوج کے سربراہ کے یہ کہنے کے بعد بھی کہ صورتحال “کنٹرول میں ہے۔” پابندیاں برقرار ہیں۔

ٹیلی کمیونیکیشن کے وزیر نے کہا کہ منگل کی شام براڈ بینڈ انٹرنیٹ بحال کر دیا جائے گا تاہم انہوں نے موبائل انٹرنیٹ کا کوئی ذکر نہیں کیا، جو احتجاج کے منتظمین کے لیے ایک اہم مواصلاتی طریقہ ہے۔

حکام کا یہ بھی کہنا ہےکہ کرفیو میں دوپہر کے وقفے کو بدھ کے روز پانچ گھنٹے تک بڑھا دیا جائے گا تاکہ شہریوں کو روزمرہ کی ضروریات حاصل کرنے میں مدد ملے۔

ڈھاکہ میں منگل کو فوج کی بھاری موجودگی تھی، کچھ چوراہوں پر بنکرز تھے اور اہم سڑکوں کو خاردار تاروں سے بند کر دیا گیا تھا۔

لیکن سڑکوں پر کافی لوگ تھے اور سینکڑوں رکشے بھی چل رہے تھے۔

رکشہ ڈرائیور حنیف نے اے ایف پی کو بتایا، “میں کرفیو کے پہلے چند دنوں میں رکشہ نہیں چلارہا تھا، لیکن آج میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔”

انہوں نے کہا “اگر میں ایسا نہیں کروں گا تو میرا خاندان بھوکا رہے گا۔”

مظاہروں کو منظم کرنے والے مرکزی گروپ “اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمنیشن” کے سربراہ ناہید اسلام نے کہا کہ 48 گھنٹے کی توسیع کے دوران کوئی احتجاج نہیں ہوگا۔

“ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت انٹرنیٹ کو بحال کرے، کرفیو واپس لے، کیمپس دوبارہ کھولے اور طلبہ کے مظاہرین کو تحفظ فراہم کرے”، انہوں نے اپنی تنظیم کے چار لاپتہ رابطہ کاروں کی “واپسی” کا مطالبہ بھی کیا۔

احتجاج پر حکام کے ردعمل کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔