بی ایل اے – آپریشن درہِ بولان | باہوٹ بلوچ

3531

بی ایل اے – آپریشن درہِ بولان

دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

تحریر: باہوٹ بلوچ

انتیس جنوری کی رات نو بجے بلوچستان کے ضلع بولان کا شہر مچھ ایک زور دار دھماکے سے گونج اٹھا، جس کی آواز پورے شہر سمیت کئی کلومیٹر دور نواحی علاقوں میں سنی گئی۔ دھماکوں اور فائرنگ کا سلسلہ اگلے دو روز تک مسلسل چلتا رہا۔

آدھے گھنٹے بعد ہی بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ “بی ایل اے کی آپریشن درہِ بولان کا آغاز ہوچکا ہے”۔ جیئند بلوچ نے بلوچ عوام کو گھروں سے نہ نکلنے اور شاہراؤں پر سفر کرنے سے گریز کرنے کے انتباہ کیساتھ واضح کیا کہ اس آپریشن میں بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ، اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ، فتح اسکواڈ اور انٹیلیجنس ونگ حصہ لے رہے ہیں۔

یہ پیچیدہ اور شدید نوعیت کا حملہ بلوچستان کے آزادی کی تحریک میں اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا۔ بعض تجزیہ نگار اس کو تاریخی حوالے سے بھی بلوچ تاریخ میں منفرد حملہ قرار دے رہے ہیں۔

مچھ شہر کہاں واقع ہے؟

مچھ شہر، بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ مچھ شہر کو وہاں سے نکلنے والے کوئلے کے باعث خزانوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہاں سے پاکستان کے دیگر علاقوں سمیت خصوصاً پنجاب کے فیکٹریوں کو کوئلے کی بڑی مقدار فراہم کیا جاتا ہے، جس سے سالانہ اربوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ 1929 میں انگریزی حکومت نے مچھ جیل قائم کی جو اس زمانے سے کالا پانی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس جیل میں معروف سیاست دان، دانش ور، صحافی برادری پابند سلاسل رہے ہیں۔

اس کے علاوہ مرکزی شاہراہ (NA-65) اور ریلوے ٹریکس، جہاں سے روزانہ ہزاروں مال بردار و دیگر گاڑیوں و ٹرینوں کی آمد و رفت اس شہر کے اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔

موجودہ دور میں اس شہر میں ہائی سیکورٹی مچھ جیل، پاکستانی فوج کی ہیڈکوارٹر سمیت شہر کے مختلف مقامات اور ریلوے ٹریکس کے ساتھ فورسز کی درجنوں پوسٹس اور چوکیاں قائم ہیں۔

آپریشن درہِ بولان:

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا آپریشن درہِ بولان بلوچستان کی تاریخ میں پیچیدہ اور شدید نوعیت کا حملہ تھا، جس میں 385 سرمچاروں (آزادی پسند جنگجوؤں) نے حصہ لیا۔ اس آپریشن میں بی ایل اے کی فدائی یونٹ مجید برگیڈ کے 12 ارکان نے بھی حصہ لیا جبکہ بی ایل اے کے خصوصی دستے اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ (ایس ٹی او ایس) اور فتح اسکواڈ بھی اس کا حصہ تھیں۔

حملے کا آغاز میں بی ایل اے مجید برگیڈ کے فدائی نے بارود سے بھری گاڑی کو پاکستانی فورسز کے ہیڈکوارٹر سے ٹکرا دی بعدازاں تنظیم نے اپنے رکن کی شناخت فاروق سید عرف چاکر کے نام سے کی۔ دھماکے کے ساتھ ہی بی ایل اے مجید برگیڈ کے ارکان نے پیش قدمی شروع کی جبکہ دیگر خصوصی دستوں نے بیک وقت فوجی چیک پوسٹ، پولیس تھانے و دیگر تنصیابات پر حملہ کردیا۔

بی ایل اے سرمچاروں نے مرکزی شاہراہ سمیت ریلوے اسٹیشن، پولیس چوکیوں کو اپنے کنٹرول میں لیا جبکہ ریل پٹڑیوں کو دھماکہ خیز مواد نصب کرکے تباہ کیا گیا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بلوچ آزادی پسند تنظیم نے روایتی فوجی انداز میں کوئی حملہ کیا ہو۔ 80 کلومیٹر کے احاطے میں مچھ کا علاقہ 46 گھنٹوں تک بی ایل اے کے قبضے میں رہا۔ بلوچ جنگجوؤں نے جدید ہتھیاروں سمیت راکٹوں سے حملہ کیا جبکہ ہیلی کاپٹروں کو مارنے کیلئے دور مار دہ شکہ (DShK) کا استعمال کیا گیا۔

بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے میں اپنے 13 ارکان کے مارے جانے کی تصدیق کی، جن میں 12 ارکان بی ایل اے – مجید برگیڈ کے فدائین اور ایک بی ایل اے – فتح اسکواڈ کا رکن شامل تھا۔ تنظیم نے اپنے بیان میں پاکستانی فورسز کے 78 ارکان کے ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی جن میں ریگولر آرمی، پیرا ملٹری فورس فرنٹیئر کور اور اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے اہلکار شامل ہیں۔

اس آپریشن کے دوران جنگجوؤں نے جہاں فوجی ہیڈکوارٹر پر قبضہ جمائے رکھا وہیں کمک کیلئے آنے والے فوج کے قافلوں کو شہر سے باہر مرکزی شاہراہ پر نشانہ بنایا جبکہ پاکستانی فوج و خفیہ اداروں کی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈز کےارکان بھی نشانہ بنائے گئے۔

حکومتی موقف میں تنزلی:

‘آپریشن درہِ بولان’ کے دوران پاکستانی حکومتی موقف تواتر کیساتھ تبدیل ہوتی گئی۔ اس دوران بلوچستان حکومت کے نگراں وزیراطلاعات جان اچکزئی نے متعدد بیانات میں مختلف دعوے کیے تاہم لوگوں کی نظریں بی ایل اے کے آفیشل میڈیا ‘ہکّل’ کے ٹیلی گرام و وٹس ایپ چینل پر مرکوز رہیں۔

بلوچستان کے نگراں وزیراطلاعات نے حملے کے دو گھنٹے بعد میڈیا کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ‘ہمیں پہاڑی علاقے میں چند راکٹس فائر کیے جانے کی اطلاعات ملی ہے’۔ نگراں وزیر اطلاعات نے آدھے گھنٹے بعد ہی اپنے پہلے بیان کی نفی کرتے ہوئے ایک اور بیان میں دعویٰ کیا کہ ‘مچھ میں، سیکورٹی فورسز نے اسلم اچھو گروپ سے وابستہ عسکریت پسندوں کی طرف سے کئے گئے تین مربوط حملوں کو کامیابی سے ناکام بنا دیا ہے۔ عسکریت پسند اب پیچھے ہٹ چکے ہیں اور ہماری سیکورٹی فورسز اس وقت ان کے تعاقب میں ہیں۔”

نگراں وزیر اطلاعات کی جانب اس طرح کے بیانات کا سلسلہ اگلے تین روز تک جاری رہا۔

دوسری جانب نگراں وزیر اطلاعات کے دعوؤں کے برعکس مچھ کے علاقہ مکینوں کی جانب سے آمدہ ویڈیو فوٹیجز علاقے کی گھمبیر صورتحال بیان کرتے رہے۔ اس دوران بی ایل اے کی میڈیا چینل پر جنگجوؤں کے آڈیو پیغامات سمیت علاقے میں گشت کرنے اور مساجد میں اعلان کرتے سرمچاروں کے ویڈیوز جاری کیے جاتے رہے۔

اختتامیہ:

بلوچ لبریشن آرمی سمیت دیگر مسلح آزادی پسند تنظیمیں ماضی قریب میں اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لاکر پاکستان فوج کے کیمپوں پر قبضے، حاضر سروس فوجی افسران و اہلکاروں کی گرفتاریاں کرچکے ہیں۔ جس طرح سال 2022 میں بی ایل اے نے بیک وقت نوشکی اور پنجگور میں پاکستان فوج کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرکے ان کو اپنے قبضے میں لیا تاہم مچھ میں حملہ اور دو روز تک شہر اپنے قبضے میں رکھنا ماضی کے تمام حملوں سے مختلف نظر آتا ہے۔

جس طرح بی ایل اے ترجمان جیئند بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ “ہمارا پہلا مقصد اپنی بلوچ قوم کو یہ دِکھانا تھا کہ انکی قومی فوج بی ایل اے یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ اتنی قوت کے ساتھ قابض پاکستان کے قبضے سے اپنا ایک شہر چھڑا کر مسلسل دو دنوں تک اپنے کنٹرول میں رکھ سکے۔”

بی ایل اے کا یہ حملہ بلوچ آزادی کیلئے لڑی جانے والی جنگ کا رخ پہاڑوں سے شہروں کی طرف موڑنے کا پیغام دے رہی ہے۔ اس حملے سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں بلوچستان کی آزادی کی تحریک کی شدت شہروں میں دیکھنے میں آئے گی۔

بلوچ لبریشن آرمی ماضی میں چائنیز قونصلیٹ، ہائی سیکورٹی زون گوادر میں چائنیز قافلے یا تربت شہر میں انٹیلجنس بیسڈ آپریشن میں پاکستانی خفیہ اداروں کے اعلیٰ افسران کو نشانہ بنا چکی ہے تاہم ‘آپریشن درہِ بولان’ میں بیک وقت چار یونٹس کا آپریشن میں حصہ لیکر شہر کو قبضے میں لینا اس تنظیم کے صلاحتیوں کا اظہار کرتی ہے۔