بھائی لاپتہ نہیں تھا، ریاستی پالیسیوں کے سبب نوجوان مسلح جدوجہد کا راستہ اپنا رہے ہیں – گل زادی بلوچ

1372

مچھ بولان میں جانبحق ہونے ودود ساتکزئی کی بہن و انسانی حقوق کی کارکن گل زاری بلوچ نے کہا ہے کہ میرے بھائی کے واقعے کو لیکر میرے خلاف پروپیگنڈے کیے جارہے ہیں۔ یہ بات پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے کہ میرے بھائی کو12/8/2021کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا تھا میں نے اپنے بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف جدوجہد کی تھی، میرا بھائی 8/2/2022 کو ریاستی زندان سے بازیاب ہوگیا تھا۔

گل زاری بلوچ نے کہا کہ اس کے بعد میرے بھائی نےکب، کیوں اور کیسے مسلح جدوجہد کا انتخاب کیا اس کا مجھے کوئی بھی علم نہیں ہے اور وہ اس کا ذاتی فیصلہ تھا۔ البتہ میں پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہوں اور میں سمجتھی ہوں ریاست نے بلوچ نوجوانوں کے لیے بلوچستان میں پر امن سیاسی جدوجہد کے تمام راستے بند کیے ہیں جس کے سبب نوجوان مسلح جدوجہد کے راستہ اپنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شاید ریاست کے پاس اب بھی وقت ہے وہ ہوش کے ناخن لے اور اپنے غلط پالیسوں پر نظر ثانی کریں۔ جبکہ میں ان تمام لوگوں پر واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میرے خلاف منفی پروپیگنڈوں سے میں اپنے سیاسی جدوجہد سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونگی اور نہ ہی میں بلوچ نسل کشی کے خلاف خاموش ہونگی۔

خیال رہے ودود ساتکزئی بلوچ لبریشن آرمی کے “آپریشن درہِ بولان” کا حصہ تھے۔ بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے گذشتہ روز ایک تفصیلی بیان میں کہا کہ شہید فدائی عبدالودود ساتکزئی عرف شیہک کا تعلق مچھ شہر سے تھا۔ آپ کو 2021 میں قابض فوج نے جبری لاپتہ کیا، کئی مہینے ٹارچر سیلوں میں اذیت دینے کے بعد آپ کو رہا کردیا گیا۔ جس کے بعد آپ اس فیصلے پر پہنچے کہ ایک بدتہذیب دشمن پرامن سیاسی زبان کو نہیں سمجھ سکتا اور جنگ ہی بلوچ قوم کو غلامی کی ذلت سے نجات دلا سکتی ہے، جسکے بعد آپ نے ایک سال قبل بی ایل اے – مجید برگیڈ کو اپنی خدمات پیش کیں۔ فدائی ودود ساتکزئی دو دنوں تک ایک اہم جنگی پوزیشن پر مستعد رہے، جہاں دلیری کے ساتھ لڑتے ہوئے، آپ نے دشمن کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہیں دیا۔
واضح رہے ودود ساتکزئی کا “آپریشن درہِ بولان” کا حصہ ہونے پر سماجی رابطوں کی سائٹس پر گل زادی و بلوچ جبری لاپتہ افراد حوالے سے ‘پاکستان فوج کی حمایت یافتہ’ افراد کے اکاؤنٹس پر پوسٹس سامنے آئیں جن میں گل زادی بلوچ کی اپنے بھائی کی بازیابی کے وقت تصاویر و ویڈیوز شائع کیے گئے۔

بلوچ سیاسی و سماجی حلقوں نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا کہ گل زادی بلوچ نے بھائی کی بازیابی کے بعد ایسا کوئی دعویٰ نہیں کہ بھائی لاپتہ ہے تاہم آئی ایس پی آر کے پیرول پر چلنے والے اکاؤنٹس کے ذریعے بلوچ جبری لاپتہ افراد کے کیسز کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بلوچستان میں یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی حملے کے بعد جبری لاپتہ افراد کے حوالے سے اس نوعیت کے بیانات سامنے آئیں ہو۔ مئی 2019 میں گوادر پرل کانٹیننٹل پر حملے بعد ایک نوجوان طالبعلم کی تصاویر وائرل کرکے اسے بی ایل اے – مجید برگیڈ کے رکن حمل کے طور پر پیش کیا گیا تاہم بعدازاں بی بی سی اردو نے اس پر تحقیقی رپورٹ شائع کرکے مذکورہ دعوؤں کر رد کردیا۔