فکری و نظریاتی مباحث ایک تنقیدی جائزہ
(حصہ سوئم)
تحریر: مہر جان
دی بلوچستان پوسٹ
مارکسزم کیوں صحیح ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ سمجھنا لازمی ہے کہ مارکس کا بنیادی مقدمہ کیا ہے؟ مارکس جب سماج کو سائنسی نقظہ نظر سے دیکھتا ہے تو دراصل وہ کہہ کیا رہا ہے؟ اس سے اختلافات کی بنیادی وجوہات کیا ہیں جس پہ “فرینکفرٹ اسکول آف تھاٹ” سے تعلق رکھنے والے مفکرین سامنے آۓ، جو مارکس سے اختلاف رکھنے کے باوجود خود کو مارکسسٹ مفکرین کے صف میں شامل سمجھتے ہیں ۔ مارکس کا مقدمہ بیان کرنے سے پہلے گر ھیگل کی جدلیات پہ طائرانہ نظر نہ دوڑائ جاۓ تو یہ ھیگل کے ساتھ ناانصافی ہوگی، کیونکہ مارکس کے لیے ھیگل ایک مردہ گھوڑے کی مانند نہیں تھا ، بلکہ مارکس نے اسی کی شہ سواری سے ہی آسمان سے زمین کی ںجاۓ، زمین سے آسمان کی جانب، سماج میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ٹھانی۔ ھیگل نے یونانی ملبے سے اپنا فلسفیانہ نظام تعمیر کیا، ھیگل کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے فلسفیانہ نظام میں پچھلے تمام فلسفے کا جوھر باہم متجازب ہوکر نہ صرف موجود، بلکہ محفوظ بھی ہے ، اس لیے دوسرے فلسفیوں کے مقابلے میں سبجیکٹیوٹی کا یہ سوال ھیگل پر صادق نہیں آتا کہ ‘ایک فرد (سبجیکٹ) ہو کر وہ کس طرح سے یونیورسلیثی کا فلسفہ دے سکتا ہے؟ ھیگل کے میتھڈ کو پاؤں کے بل کھڑا کرکے مارکس نے سرمایہ دارنہ نظام کا تنقیدی جائزہ لیا، کم وبیش پینتیس سال کے فلسفے، ادب و تاریخ کے وسیع مطالعہ کے بعد اس نے سرمایہ دارانہ نظام اور انسانی معاشی صورتحال کا تجزیہ کرکے مستقبل کے امکانات کی نشاندہی کی، لیکن بہت سے لوگ ان امکانات کو کسی نجومی کی پیشنگوئیاں سمجھ کر مارکس کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔
دراصل مارکس ریفارمز کی بجاۓ انقلاب کا داعی رہا ہے, وہ سماج میں انقلاب کوعقلی تقاضوں کی تکمیل سمجھتا ہے، اس انقلاب کے لیے محرک کردار مزدور ہے، ” دنیا کے مزدورو اکھٹے ہوجاؤ” کیمونیسٹ مینی فیسٹو کا ایک طرح سے مقدمہ ہے،,مارکسسٹ کے لیے چین جیسے سامراج کا مزدور اور گوادر جیسے کالوناہزڈ کا مزدور ہم پیشہ ہونے کے حوالے سے ایک ہی ہے، اور مارکسسی انقلاب کےلیے ایک بنیادی کردار ہے ، مارکس اس پورے انقلابی عمل کو ، عقل کا تقاضا سمجھ کر، سماج کو جدلیاتی مادیت کی تناظر میں دیکھتے ہوۓ تاریخی مادیت (تاریخی پڑاؤ) کو آشکار کرنے کی بھر پور سعی کرتا ہے، اسی تناظر میں وہ فطری قوانین کے ساتھ ساتھ انسانی محنت کوبھی فعال سمجھ کر اسے سائنسی نقظہ نگاہ کا نام دیتا ہے ۔ اس کے مطابق انسان نہ صرف جدلیاتی حوالے سے خود فطرت ہی کا شاہکار ہے بلکہ فطرت پہ قابو پانے والا بھی ہے ، اسلیے فطری قوانین ، انسانی محنت ، تاریخی عمل کی جدلیات ہی دراصل سماج کی نہ صرف بنیاد ہے بلکہ اسکی پرورش بھی ہے۔
سماجی علوم میں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ سماج کیسے پروان چڑھتا ہے؟ اس میں بنیادی کردارانسانی وجود کا ہوتا ہے یا انسانی وجود سے پیشتر فطرت کی اپنی بھی خود نگاری ہوتی ہے، جدلیاتی حوالےسے سماج اور انسان کا تعلق بقول الیگزنڈر اسپریکن اس کشتی کی مانند نہیں ہوتا جو دریا پہ بہتی ہے بلکہ انسان کی تاریخ اس دریا کی مانند ہوتی ہے جو بہہ رہا ہوتا ہے، جو مفکرین بشمول سارتر یہ سمجھتے ہیں کہ سماج میں انسانی وجود ہی وہ بنیادی عنصر ہے جس سے سماج کی پرورش ہورہی ہوتی ہے، وہ با دیگر الفاظ مارکس/ اینگلز سے بنیادی اختلاف رکھتے ہوے انسان کے وجود کو سماج اور فطری قوانین سے بالاتر مانتے ہیں، یہاں سے وہ بنیادی لکیر کھینچ جاتی ہے کہ آیا انسانی وجود و شعور سے سماج کی پروان ہورہی ہے؟ یا پھر فطری قوانین کا عمل دخل بھی ہے؟ ھیگل جب یہ جملہ اپنی کتاب فلاسفی آف راہٹ کے مقدمہ میں لکھتا ہے ” جو ریشنل ہے وہی حقیقی (نیچرل) ہے” دراصل اسی سمت کی طرف اشارہ ہے ، مارکس کے لیے ھیگل کے برعکس ‘نیچرل ہی ریشنل ہے” یعنی سماج میں انقلاب عقلی تقاضوں کی تکمیل ہے۔ یہاں ھیگل کے لیے ریشنل مقدم ہے جبکہ مارکس کےلیے نیچرل مقدم ہے۔
اس پورے انقلابی عمل کے لیے انسان خود تاریخ میں عامل کا کردار ادا کررہا ہے، فطرت پہ قابو پانے کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی تاریخی حرکتیت کا پہیہ بھی بنا ہوا ہے ، یہاں سے بہت فلاسفرز بشمول کارل پوپر اس خدشے کا شکار ہوۓ کہ مارکس نے جو نامیاتی” کل” پیش کیا تھا جس میں تاریخ کے قوانین اپنے آپ کو اپنی ہی خود مختار حرکتیت سے کھول کھول کر پیش کرتے ہیں یعنی تاریخ کے قوانین تاریخ میں پیوست ہیں، اس طرح انسان بطور عامل کے تاریخی حرکتیت کے سامنے سر نگوں ہوجاتا ہے۔ اس تاریخی حرکتیت کو فطری قوانین سے جوڑ کر اسے تاریخیت یا تاریخی جبر کا نام دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف مارکس فطری قوانین ، تاریخی عمل ، انسانی محنت کی جدلیات کو سماجی بنیاد مان کر اسے سائنسی نقظہ نگاہ کا نام دیتا ہے۔
(جاری ہے)
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔