فکری و نظریاتی مباحث ایک تنقیدی جائزہ (حصہ دوئم) – مہر جان

216

فکری و نظریاتی مباحث ایک تنقیدی جائزہ
حصہ دوئم

تحریر: مہر جان

دی بلوچستان پوسٹ

سیاست کے میدان میں اب عینیت پسندی، مادیت پسندی ، علمی ذوق شوق سے بڑھ کر دومختلف نظریاتی کیمپ بن گئے ہیں اور دوسری طرف باقاعدہ عقلیت پسندی و تجربیت پسندی کی تحریکیں بھی برپا ہوئیں، اٹھارہویں صدی میں باقاعدہ مغرب کی یونیورسٹیز میں عینیت پسندی کی تحریکیں اس طرح چلیں جس طرح آج کل پوسٹ ماڈرن ازم کے نام پہ نہ صرف یونیورسٹیز بن رہی ہیں،بلکہ اکیڈمک سطح پہ پوسٹ ماڈرن ازم کی باقاعدگی سے تبلیغ جاری و ساری ہے، اسی طرح ماضی میں کچھ بڑے بڑے لکھاری انسان کو “پولٹیکل بی اینگ” ماننے سے انکاری ہوکر لایعنیت Nehilism کی جانب چل پڑے، تشکیک کے نام پہ ظلم کی نت نئ تشریحات کی جانے لگیں کہ ظلم کی کوئ ٹھوس شکل نہیں، مظلوم بھی کبھی ظالم بن سکتا ہے اس لیے مظلوم کی حمایت بھی لایعنی ہے, اسی لایعنیت کی تبلیغ فکر و فن اور ادب میں اس قدر کی گئ کہ ادبیات میں نوبل پرائز کے حقدار ٹھہر کر نوبل پرائز ان کے لیے بامعنی بنا، وہ عمل کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے لگے، جب ان کے لیے حقیقت کسی بھی لحاظ سے بے معنی ہو تو عمل بھی اسی طرح بے معنی ہی ہوگا، اسی لایعنیت کو بنیاد بنا کر عمل کی ہر طرح مخالفت کی جانے لگی، ادب برائے ادب کے پرچار کرنے والوں نے اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

دوسری طرف کچھ فلاسفرز کے لیے فلسفہ کی دنیا تشریحات سے بڑھ کر اسے تبدیل کرنے کا عمل بھی بنا ، یعنی مارکس کے الفاظ میں کہ “فلاسفرز دنیا کی تشریحات کرتے آرہے ہیں اب اسے تبدیل کرنے کا وقت یے” یہی تفریق کسی اور حوالے سے فریڈرک چارلس کوپل سٹون نے ہیوم اور بینتم میں دکھایا کہ ہیوم دنیا کو سمجھنے پہ اکتفاء کیا جبکہ بھینتم دنیا کو تبدیل یعنی دنیا میں کیسے رہا جائے “افادیت پسندی” کا درس دے گیا, لیکن مارکس نے صرف درس دینے پہ اکتفاء نہیں کیا بلکہ مارکس کا یہ کہنا یہاں کس قدر “عمل” کے حوالے سےپر معز و پر معنی ہے کہ”جرمن جس انقلاب کے بارے میں زہنوں میں سوچ رہے تھے وہ فرانس کی گلیوں میں برپا ہوچکا تھا”۔ تھیوری اینڈ پریکٹس جیسے موضوعات کو اسی تناظر میں دیکھا و پرکھا جانے لگا ، بعض احباب بطور خاص کارل پوپر کے نزدیک فلاسفرز کی تھیوریز ان کے عمل سے بڑھ کر ہتھیار ہوتے ہیں جو دو دھاری تلوار کی مانند دشمن کے لیے نہ صرف زہر قاتل ہوتے ہیں بلکہ اپنوں کے لیے بھی بطور تنقیدی عمل کے حساب سے کسی تریاق سے کم نہیں ہوتے. اسی تناظر میں پوسٹ کالونیل اسٹڈیز میں تھیوری کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے. کبرال نے اسی موقع پہ کہا تھا کہ “کنویں کا پانی جس قدر بھی گرم ہو لیکن چاول کو نہیں پکا سکتا” (افریقن کہاوت)، اور نہ ہی اس کہاوت کے مصداق کہ جب آپ کا گدان (گھر) جل رہا ہو اور آپ تھیوری کی رٹ لگارہے ہو
‏When your hut is burning , it is no use beating the tom- tom.

فلسفے کی دنیا میں عینیت پسندی و عقلیت پسندی کے کیمپ سے جہاں مذہب کو بنیادیں ملتی رہیں، تو دوسرے کیمپ مادیت پسندی و تجربیت پسندی سے انہدام کا پہلو بھی نکلتا رہا، افلاطون جو پارمینڈیس کی بی اینگ “فلسفہ سکون” اور ہیراقلاطیس بی کمنک “فلسفہ حرکت ” کا ساہتھیسز عینیت و عقلیت کی بنیاد پہ پیش کیا کہ حقیقت ورلڈ آف آپیڈیاز جہاں حقیقت ساکن ہے جب کہ حقیقت کی نقل کو حسی دنیا یعنی تغیر کی دنیا کہا، یہ سب کچھ ایک ذہن کا ڈیزائن کردہ ہے، اسی تناظر میں افلاطون کو “عیسی سے پہلے کا عیسی” تک (جدلیاتی پہلو) کہا جانے لگا ۔الغرض عینیت پرستی کے کیمپ سے مذہب کو بطور خاص جبکہ موضوعی عینیت پرستی کے کیمپ سے پوسٹ ماڈرن ازم، ریلیٹیو ازم ،لسانیات جیسے اہم موضوعات کو جواز کسی نہ کسی حوالے سے ملتا رہا، یہاں تک کہ مغرب میں فلسفے کو لسانیات کے دائرے میں محدود کرنے کی انتھک کوششیں کی گئیں، جبکہ ھیگل اسی تنا ظر میں موضوعی عینیت پرستی کی سخت ترین ناقد رہے ، اب مادیت پسندی بقول ماؤ انسان کی سماجی فطرت اور اس کے تاریخی ارتقاء سے جڑ کر سماجی علم اور عمل کا جاہزہ لینے لگی، اور مادیت پسند و تجربیت پسندوں کے کیمپ سے ، ریزن کے توسط سے یعنی جدلیاتی انداز سے سائنس دنیا میں قدم آگے بڑھاتے رہے۔

سائنس کی دنیا اس قدر پر تیقن رہا کہ سماجی علوم کو بھی سائنسی انداز سے پرکھنے کی ترغیب ملی، اور یوں سماجی علوم کے ساتھ سائنس کا لاحقہ جڑ گیا۔ اب سماج کو سائنسی بنیادوں پہ نہ صرف سمجھنے کی کوششیں تیز تر ہوئیں بلکہ تبدیلی کے عمل کو بھی سائنسی انداز سے دیکھا جانے لگا، یعنی ماضی و مستقبل کی تشریحات سائنسی انداز میں ہونے لگیں، سماجی سائنسدانوں کی سب سے بڑی کاوش یہی رہی کہ شاندار مستقبل کے لیے ماضی و حال کو مد نظر رکھ کر فطرت میں زوال کے اسباب کو جان کر ان پہ کنٹرول کیسے کیا جاسکے؟ نیچرل لاز جو کچھ فلاسفرز کےلیے تاریخیت ( تاریخی جبر) سے کم نہیں ان کی بنیاد پہ مستقبل کی پیشنگوئیاں بھی کی گئیں ، یہ پیشنگوئیاں سماج کے حوالے کس قدر اثر پذیر رہیں یہ اک متقاضی بحث کا حامل ہے۔ کارل مارکس کے انقلاب کے حوالے سے پیشنگوئیاں کاوتسکی سے لے کر کارل پوپر تک کے نشانے کے زد پہ رہیں جبکہ دوسری طرف ٹیری ایگلٹن نے اس حوالے سے پوری کتاب لکھی کہ “مارکس کیوں صیح تھا؟”

(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔