قصہ بولان – برزکوہی

2914

قصہ بولان

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

(۱)

بولان میں جب سردیاں اپنا پردہ پھیلاتی ہیں، تو اس ٹھنڈ میں قدرت کے وسوسے غالب آجاتے ہیں۔ پہاڑ خاموشی سے استادہ رہتے ہیں اور ان کی چوٹیاں برفیلی فیتوں سے مزین ہوجاتے ہیں۔ ٹھنڈی ہوا گہری وادیوں سے گزرتے ہوئے، رات کے راز چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ زمین، ایسے سفید، نرم اور ساکن ہوجاتی ہے، جیسے یہ فطرت کی فنکارانہ مہارت کے لیے ایک کینوس ہو۔ ہر درخت اور چٹان، بولان کی سردیوں میں، ایک نیا خواب بُننا شروع کردیتی ہے۔ پھر بھی اس ٹھٹھرتی سردی کے دل کے اندر ایک گرمی کا احساس پوشیدہ ملتا ہے، جیسے سردیوں کا لمس روحوں کو رہائی دے رہا ہو۔ بولان کی سردیوں میں لگتا ہے، جیسے وقت جم گیا ہے اور خاموشی سکون میں گرفتارہو۔

بولان میں ہمیں سردیوں کی مرضی کا ایک حسن ملتا ہے۔ یہاں کی سردیوں میں، جب زمین ساکت ہو جاتی ہے، اور برف کی سرگوشیاں ہر پہاڑی کو سجادیتی ہیں، تو چاندنی تلے اس وادی کا دل خاموشی سے دھڑکنا شروع کردیتا ہے، اور کہتے ہیں کہ اس دھڑکن کی آواز محض اس زمین کے عاشقوں کو ہی سنائی دیتی ہے۔

۲۹ جنوری کی ایسی ہی ایک یخ بستہ رات ۳۰۰ کے قریب عاشقانِ وطن بولان کے دل کی دھڑکنیں سن کر اور اس سے حرارت پاکر، رات کی تاریکی میں مچھ شہر کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان سب کو پتہ ہے کہ واپسی پر وہ پورے نہیں ہونگے۔

(۲)

اس شدید سردی میں تپشِ شعور سے حرارت پاکر دو دنوں سے مسلسل لڑنے والا حافظ زیشان زہری ایک دیوار کے عقب میں محفوظ جگہ پر ٹیک لگاکر اپنے جاٹے سے وائرلیس نکال کر مطلوبہ چینل لگاکر رابطے کی کوشش کرتا ہے، دو تین بار آواز لگانے کے بعد اسکا رابطہ آپریشنل کمانڈ سے ہوجاتا ہے، تھوک نگل کر ریگستان سی خشک حلق کو تھوڑا تَر کرنے کے بعد وہ گلے پر زور لگاکر بولنا شروع کرتا ہے “کمانڈر، میرے پاس گولیاں اور دستی بم اب تک کثیر تعداد میں ہیں اور دشمن کو خاک چٹانے کا اچھا موقع بھی دستیاب ہے، لیکن میں انتہائی پیاسہ ہوں، میرا پانی کا ذخیرہ گھنٹوں قبل مکمل ختم ہوچکا ہے، پیاس کی وجہ سے مجھ پر غشی طاری ہورہی ہے، مجھے ڈر ہے کہ میں پیاس سے نڈھال ہوکر بیہوش نا ہوجاؤں اور دشمن کے ہاتھوں زندہ لگ جاؤں، لہٰذا مجھے اجازت دی جائے کہ میں آخری گولی کے فلسفہ کو اپنا کر یہیں شہادت قبول کرلوں۔”

دوسری طرف سے کمانڈر کی آواز آتی ہے “نہیں، بالکل نہیں سنگت، ایسا نہیں کرنا، صبر و برداشت سے کام لیکر جنگ کو آگے بڑھاتے جاؤ سنگت، جب تک تمہاری آنکھوں میں روشنی ہے، لڑتے رہو۔”

ایک گھنٹہ پینتالیس منٹ بعد اکتیس جنوری کی شام پانچ بجے کے وقت تشنہ لب اور خشک حلق سے زیشان زہری دوبارہ رابطہ کرتا ہے، اس کے خشک حلق سے بمشکل یہ آخری الفاظ نکلتے ہیں “رخصت اف اوارون سنگت، اپنا اور دوستوں کا بہت بہت خیال رکھنا، اللہ آپ سب دوستوں کو سلامت رکھے۔ میں اب چلا۔۔۔ میں اب چلا” اسکے ساتھ ہی گولی کی آواز کی گونج سنائی دیتی ہے۔ آخری گولی کی عشق میں ایک فدائی، ایک شیدائی، ایک سپاہی، ایک ہیرو، ایک جانباز، ایک حافظ کا جسم ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ٹھنڈا ہوگیا اور فکری تمازت زندہ ہوکر بولان کی ہواؤں کی نگہت میں تحلیل ہوگئی۔

(۳)

اس دن سے لیکر آج تک سوچ رہا ہوں، تمام تحاریک و انقلابات کے بین الانسانی رشتوں کی تاریخ میں ڈوب کر جستجو کررہا ہوں کہ ایسی ناقابل بیان درد بھری کیفیت، لمحہ، عشق وطن، عشق سنگتی، مہر سنگتی، جرت و حوصلہ و برداشت، تشنگی کی حالت میں زندگی و موت کی کیفیت میں اپنے سنگتوں کے لیئے سلامتی کی دعا و پر مہر کلہو و اظہار کہاں ملے گا؟ جواب مجھے صرف اور صرف بولان کی سرمئی پہاڑوں کے دل مچھ میں ملتا رہا۔

زیشان زہری کی مہر میں، عطاء جان کی بہادری میں، سلال جان کی مسکراہٹ میں، لالا قاسم کی قومی جنون میں، جمال جان کی فکری جمالیات میں، ودود جان کی عقابی و بیرگیر نگاہوں میں، حمل مومن کی فطانت میں، نادر بالی کی جنگی مہارت و ذکاوت میں، صدام جان کی نفاست و مستقل مزاجی میں، فاروق جان کی دور اندیشی میں، نظام جان کی فکری عہد و افق میں، زیشان رند کی بلند حوصلوں اور کاشف جان کی پرامیدی میں۔

خشک و سوز لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ اور اپنی پرمہر و پر نور آنکھوں کو آسمان پر لگا کر بولان کی مہر گہوش میں اپنی سملی وطن کی مہک میں اپنے پیاسے حلق پر اپنے ہی گولی کا نشانہ باندھ کر، اس مقام پر اپنے وطن، اپنی قوم، اپنے کاروان اور اپنے کاروان کے سنگتوں کی نیک دعا، سلامتی، کلہو و حفاظت۔ زندگی، یہ مہر، یہ خلوص، یہ ہمدردی، کس رشتے میں ملے گا؟ ماں باپ، بھائی بہن، بیٹا بیٹی، بیوی و شوہر، محبوب یا دیگر خونی رشتوں میں مل سکتا ہے؟ جواب بالکل نفی میں ہے، وقت نزاع کوئی کسی کا نہیں، صرف اپنے ہی درد و غم میں ہوتا ہے۔

نظریاتی سنگتی کی حساسیت و اہمیت ان سے پوچھو، جن کو نظریاتی سنگتی کا اصل معنی و تشریح اور معیار کا پورا علم ہے، تب جاکر نظریاتی سنگتی کی مہر و محبت، درد و تکلیف، احساس میں باقی تمام رشتے خاک میں ملتے نظر آئینگے۔

جہاں بھی، نظریاتی و فکری سنگتی کی حقیقی معنی و حقیقی تشریح اور حقیقی معیار سے کم علمی و کوتاہ فہمی ہو اور سنگتی کی احساسیت مفلوج و ضعیف ہو، وہاں اس کی سائنسی و علمی ناقابل تردید شواہد و منطق یہ ہوتی ہے کہ ذاتی و خاندانی اور مفاداتی رشتوں کی اہمیت و افادیت اور ترجیحات ہمیشہ اولین اور اعلیٰ درجے پر آجاتے ہیں۔ جو انقلابی جنگ اور تحریک میں بدترین خود غرضی اور مفاد پرستی کی شکل ہوتی ہے۔

قوم اور گل زمین کی مہر و درد اور عشق سے تخلیق پانے والا نظریہ و فکر اور پھر قومی و وطنی نظریہ و فکر کے رشتوں کے سامنے جب ذاتی و خونی اور مفاداتی رشتے بے معنی و بے رنگ اور لغو قسم لگتے ہوں تو کیا یہ کیفیت، یہ نفسیات، یہ مزاج اور یہ مقام، نظریات و فکر کے شعور کے زمرے میں شمار نہیں ہوتے ہیں؟

جہاں رشتوں کی بنیاد، سلسلہ، استحکام اور خوبصورتی کا معیار و تخلیق اور اظہار لہو کی خوشبو سے تشکیل پاتی ہو، وہاں ایسے انمول و منفرد اور تاریخی رشتوں کو کیا ذاتی مفاد و ذاتی غرض پر تخلیق اور تشکیل پانے والے رشتے ختم اور کمزور کرسکتے ہیں؟

آج بولان سے لیکر مکران تک، شال سے لیکر جھالاوان تک، رخشان سے لیکر سندھ تک، نہ زگری نہ نمازی، نہ براہوئی نہ بلوچی، بس صرف بلوچ بن کر اپنی سانسوں کی آخری ڈوری اور لہو کے آخری قطروں کو صفحہ قرطاس پر بکھیر کر اپنے نظریاتی و فکری رشتوں کو ثبوت اور دلیل پوری دنیا و بلوچ قوم اور دشمن کو دکھانا، کیا ایسے رشتوں کو کوئی بھی مصنوعی و مفاداتی اور خود غرضی کی بنیاد پر تشکیل دینے والا کوئی قوت کمزور اور ختم کرسکتا ہے؟

یہ اسی لہو کی پود ہے، جو گل زمین کے سینے پر ٹپکتے ہوئے زمین میں جذب ہوکر فکر و نظریئے کی فصل اگاتی ہے۔ فکر و نظریئے سے رشتوں کی تشکیل ہوتی ہے اور یہی تشکیل و استحکام ایک طاقت اور قوت بن کر دشمن کے مصنوعی، مفاداتی اور خود غرضی کی بنیاد پر تشکیل کردہ قوت و طاقت کو شکست دیکر ملیامیٹ کردیتی ہے۔

تاریخ میں کسی جگہ یہ نظیر نہیں ملتی کہ گل زمین کی آزادی و دفاع اور فکری و نظریاتی فوج کی تشکیل و تربیت اور قوت حاصل کرنا بغیر خون کی آبیاری سے ممکن ہو۔ انقلاب و قومی آزادی کی جنگوں میں خون اور سروں کی اعداد و شمار اور حساب و کتاب نہیں ہوتی ہے۔ نا خون اور سروں کی کوئی محدود و مخصوص اور خاص شمار ہوتی ہے نہ انسانی سوچ و خواہش اور فرمائش سے تعداد کم وزیادہ ہوتی ہے۔ دشمن کے خلاف اگر جنگ بے رحم شکل میں نہ ہو، تو پھر وہ کبھی بھی قومی آزادی اور انقلاب کی جنگ نہیں ہوسکتی۔

گوریلاجنگ جب طویل ہوگی تو کچھ گوریلوں یا جہد کاروں میں شعور اور مستقل مزاجی کے بجائے ذہنی تھکاوٹ کے کیسسز سامنے آئیں گے، پھر یہی ذہنی تھکاوٹ کے شکار فکری طور پر مفلوج جہدکار اپنے ذہنی تھکاوٹ اورغیر مستقل مزاجی کی کیفیت کو پردے میں چھپانے کی خاطر جنگ کی جدت و شدت اور بے رحمی کو انتہاء پسندی، مہم جوئی، جذباتیت جیسے لغو قسم کی ناموں سے تشبہیہ دیں گے۔

بے رحم اور بدتہذیب دشمن کے خلاف جنگ میں مصلحت پسندی و اعتدال پسندی رحم و شرافت اور نفیس رویہ اپنانا جنگ کی بے عزتی اور توہین کے ساتھ ساتھ اپنے پیروں پرخود کلہاڑی مارنے کے ساتھ اپنے شہیدوں کے لہو کے ساتھ ناانصافی اور دغا بازی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

(۴)

تاریک راتوں میں ایک چمکتی روشنی کی مانند، قربانی روشنی کے شعلوں کو بھڑکاتی ہے۔ یہ فینکس کی پرواز جیسی ہوتی ہے، جو محض بھسم ہوئے چتا سے ہی اٹھتی ہے۔ اقوام کی باغ میں ہر ذی روح جانتا ہے کہ قربانی وہ واحد بیج ہے، جس سے آزادی حاصل ہوتی ہے۔ قومی قربانی بلوط کی طرح ہوتا ہے، جو جھکتا ہے لیکن کبھی ٹوٹتا نہیں۔ قربانی قوموں کو ڈھالتی ہے، چاہے کچھ بھی ہو۔ تاریخ کے تمام ادوار میں ہمیں یہ سبق ملتا نظرآتا ہے کہ قربانی وقت کی حدود سے تجاوز کرتی ہے۔ قربانی بہادری کی گونج ہے، فضل کا ترانہ اور ہمت کا راگ ہے۔ سقراط نے ایک بار کہا تھا، “حکمت کی اعلیٰ ترین شکل احسان ہے۔” کسی قوم پر سب سے بڑا احسان قربانی ہے اور قربانی اسی سچائی کو اپنے خاموش ترین اندھے پن میں مجسم کردیتی ہے۔ اپنی جان اپنے سے بڑے مقصد کے لیئے دینا حقیقی انسانی جوہر ہے۔ آئیے ان لوگوں کی قربانی کی قدر کریں جو ہم سے پہلے آئے تھے اور گذر گئے۔ ان کی میراث ہمیشہ اپنے دلوں میں زندہ رکھیں کیونکہ قوموں کی تالیف میں قربانی وہ دھاگہ ہے، جو ہمیں ایک ساتھ باندھ کر، محبت اور ہمت سے، آگے بڑھاتا ہے۔

(۵)
بولان کے پہاڑوں کی ایک چوٹی پر انتہائی سرد ہواوں کی جھونکوں میں آگ کے پاس بیٹھے ہوئے عطاء شیخ اپنے یاروں کے ساتھ خاموشی سے بیٹھا سوچوں کی اتھا گہرائیوں میں غلطاں تھا کہ آپریشنل کمانڈر تاجو بولانی ہاتھ میں چائے کا پیالہ لیئے زور سے ایک کش لگانے کے بعد حلق صاف کرتے ہوئے بولتا ہے “آپ لوگ کل اتنی بڑی قربانی کے لیئے جارہے ہو، آپ لوگوں کی قوم سے مہر، وطن کا درد اور دشمن سے نفرت، جو میں آپ کی باتوں اور آنکھوں میں محسوس کررہا ہوں، سن رہا ہوں، دیکھ رہا ہوں، کیا بلوچ قوم کو کبھی یہ علم و احساس ہوگا، کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ جس قوم کیلئے آپ اتنی بڑی قربانی دے رہے ہو، اسے کبھی اس امر کا احساس تک نا ہوگا؟”
اپنے مخصوص خاموش مسکراہٹ کے ساتھ سگریٹ کا لمبا سا کش لگا کر عطا شیخ کمانڈر تاجو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولنے لگتا ہے “جب ہم صرف دعووں، نعروں و تقریروں، تحریروں اور بھڑک بازیوں سے ہٹ کر، اپنا خون بہا کر اور اپنی جان فدا کرکے قوم کو بتاینگے کہ ہم اپنی ذات کے لیئے نہیں بلکہ آپ کے لیے قربان ہورہے ہیں، آپ کے مستقبل کے لیئے، آپ کی ننگ و ناموس کے لیئے، اپنے وسائل و ساحل کے لیئے قربان ہورہے ہیں تو قوم ضرور ایک نہ ایک دن ہمارے اوپر فخر کرکے ہمارے نقش قدم پر چلنا شروع کردیگا۔ شرطِ قربانی تعظیم و پہچان نہیں، بلکہ اسکی ضرورت کا ادراک ہے۔”
“یار شیخ، آپ ایک ذہین و باشعور، بہادر سنگت ہو، دل نہیں چاہتا کہ آپ اتنی جلدی ہم سے جدا ہوجاو۔” تاجو ایک درد بھرے سرد آہ کے ساتھ شیخ سے مخاطب ہوتا ہے۔
“نہیں یار، میں خاک نہیں، میں سمجھتا ہوں مجھے بہت زیادہ کرنا تھا لیکن وہ میں نہ کرسکا اور قربان ہونا اس بڑے قرض کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، کاش میرے پاس سو زندگیاں ہوتیں اور ہر ایک زندگی اپنی زمین و قوم پر قربان کرسکتا۔” شیخ زمین پر پڑے ایک چھوٹے سا کنکر کو اٹھاکر دور پھینکتے ہوئے تاجو کو جواب دیتا ہے۔

(۶)

نطشے اپنے مشہور عالم کتاب “اور زراتھسترا بولا” میں “ابدی تکرار” کا نظریہ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ افراد کو اپنی زندگی اس طرح گزارنی چاہیے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ہر لمحے کو زندہ کرنے کے لیئے تیار ہوں۔ نطشے یہ کہتا ہے کہ ابدی تکرار کے تصور کو قبول کرنے کے لیئے مصائب اور قربانی کی ناگزیریت کو دل کی گہرائی سے قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی اعلیٰ مقصد یا آئیڈیل کے لیے خوشی سے اپنے آپ کو قربان کر کے، افراد اپنے وجود کی تصدیق کرتے ہیں اور ایک ایسی دنیا میں معنی پیدا کرتے ہیں جو فطری طور پر افراتفری اور موروثی معنی سے خالی ہے۔

نطشے کے لیئے، قربانی دینے کی آمادگی زندگی کے حتمی اثبات کی عکاسی کرتی ہے، کیونکہ یہ کسی کی اقدار کے لیے وابستگی اور عمدگی کے حصول کو ظاہر کرتی ہے۔ قربانی کو گلے لگا کر، افراد اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور معاشرے اور ثقافت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اس لحاظ سے، قربانی ذاتی ترقی اور انسانی صلاحیتوں کے ادراک کا ایک طاقتور ذریعہ بن جاتی ہے۔

(۷)

“دانش جان معاف کرنا اور دوستوں سے بھی میری طرف سے معافی مانگنا کہ آگے میں آپ لوگوں کے ساتھ ہمسفر نہیں رہونگا، ابھی چند لمحات باقی ہیں، پھر میں ریزہ ریزہ ہوکر اپنے وطن کی ہواوں میں ہمیشہ کیلئے تحلیل ہوجاونگا اور یہی ہمیشہ کیلئے میرے ہونے کا پتہ دے گا۔” فاروق بارود سے بھری گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے ہوئے دوستوں سے مخاطب ہوا۔
آنسو پونچھ کرخشک حلق سے دہیمی آواز میں دانش بولنے لگا “نہیں سنگت آپ ہمیں معاف کرنا، آپ اپنا پورا حق ادا کررہے ہیں۔”

(۸)

“مزہ تو آج آئیگا، میدان جنگ میں اپنے دشمن کو دکھا دینگے کہ جنگ ہوتی کیا ہے اور بی ایل اے و بلوچ کی طاقت کیا ہے۔” کمانڈر فیصل فتح اسکواڈ کے ایک یونٹ کے ساتھ جب مچھ شہر میں داخل ہورہا تھا تو مخابرے پر آپریشنل کمانڈر کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بول رہا تھا۔ وہ جیسے جیسے مچھ شہر کے قریب پہنچ رہا تھا، ویسے ویسے فیصل اور اسکے پیچھے چلنے والے فتح اسکواڈ کے سرمچاروں کے گام تیز اور جذبات بلند ہورہے تھے۔ اتنے میں پیچھے سے کوئی زور سے بولتا ہے ” ندر پہ شہیداں” اور پھر وہ مچھ شہر میں داخل ہوجاتے ہیں۔

(۹)

“میں جیت گیا، میں جیت گیا، بریگیڈ کے ساتھیوں کا لاکھ منتوار کہ مجھے آپریشن درہ بولان میں شرکت کی اجازت دے دی۔” بندوق کو ہوا میں خوشی سے لہراتے اور اچھلتےہوئے ودود ساتکزئی صدام جان اور حمل مومن سے مخاطب ہوتا ہے اور جذبات میں انہیں گلے لگاتا ہے۔
“ودود یار، آپ ایسے خوشی سے ناچتے ہوئے آرہے ہو، مجھے لگا کہ شاید آپ کی شادی پکی ہوگئی ہے، لیکن آپ موت کے لیئے اتنے بے چین ہو۔” صدام اپنے مخصوص دھیمے انداز میں ودود کو چھیڑتے ہوئے بولا۔
“یار شادی تو ہر بلوچ کو نصیب ہوتا ہے، یہ کوئی مسئلہ نہیں، مگر وطن پر قربان ہونے کا موقع لاکھوں میں بس ایک ودود کو نصیب ہوتا ہے اور وہ خوش قسمت ودود میں ہوں۔” ودود صدام کا ہاتھ پکڑے زمین پر چار زانوں ہوتے ہوئے بولتا ہے۔
“ودود جان، فون پر مزید کیا حال حوال ہوا، کیا نیا تازہ؟” پاس بیٹھا حمل مومن استفسار کرنے لگا۔
“یار خاص کچھ نہیں تھا، بس پاکستانی الیکشن کی باتیں ہی تھیں۔” ودود نے جواب دیا۔
“بس سنگت، میرے زہن میں بار بار یہی خیال آرہا ہے کہ نام نہاد پاکستانی الیکشن کے وقت ہم اپنے وطن پر قربان ہوکر، اپنی قربانی سے بلوچ قوم اور خاص طور پرنوجوانوں کو یہ احساس دلادیں گے کہ یہ الیکشن، یہ پارلیمنٹ، یہ جمہوریت، یہ سب کچھ پنجابی کے فائدے اوربلوچ قوم کی تباہی کے لیئے ہورہے ہیں، اور پنجابی کے ساتھ کچھ ضمیرفروش بلوچ، کرپٹ سیاستدان، سردار، میر و ٹکری، نواب اور ریاستی دلالوں کو فائدہ ہوگا اور باقی قوم کو کچھ نہیں ملے گا۔ قوم کی بقاء، ننگ و ناموس، خوشحالی، امن و امان، وقار و عزت، سربلندی بس صرف جنگ آزادی میں ہی ہے۔ بلوچ کیلئے واحد مفید الیکشن، آزاد بلوچستان کے اندر ہونے والا الیکشن ہی ہوگا اور تب تک یہ صرف خون کا ریفرینڈم ہے، اور اس ریفرنڈم میں ووٹ خون و قربانی ہے، جس کے سَر زیادہ گریں، جس کا خون زیادہ بہے، جسکا پسینہ زیادہ ٹپکے یہ سرزمین اسی کا ہے۔” سگریٹ کا ڈبہ جیب سے نکالتے ہوئے حمل مومن باقی دوستوں سے مخاطب ہوا۔

(۱۰)

عمانویل کانٹ ایک جرمن فلسفی تھا۔ وہ یورپ کا مشہور ترین مفکر گذرا ہے۔ 1760 کے بعد کے زمانے میں اس کی تحریریں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں۔ کانٹ نے اپنے وقت کے مشہور ترین فلسفی لینبز پر سخت تنقیدیں کیں۔ یہ تنقیدیں چونکہ دلائل کے اعتبار سے بہت طاقتور تھیں، کانٹ بہت جلد لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اور پھر اس کے لیے اعلی ترقیات کے دروازے کھل گئے۔ کانٹ نے فلسفے کی دنیا میں انقلاب پیدا کیا۔ وقت کی حاکم قوتوں کے بارے میں سوال پیدا کیے . عقل اور آزادی کو اپنی سوچ کا محور قرار دیا۔

کانٹ اخلاقی فلسفے پر مبنی اپنے تصانیف “اخلاقیات کی مابعد الطبیعیات کی بنیاد” اور “تنقید عقل محض” میں فرض کے مطابق عمل کرنے کی اخلاقی ضرورت پر زور دیتا ہے، جسے وہ عقل سے اخذ کردہ آفاقی اخلاقی قوانین پر عمل کرنے کی ذمہ داری کے طور پر بیان کرتا ہے۔

قربانی کے تناظر میں کانٹ کا فلسفہ اخلاقی فرض اور بے لوثی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ قربانی، کانٹیان اخلاقیات کے مطابق، اخلاقی فرض کے مطابق عمل کرنا ہے، یہاں تک کہ جب اسے ذاتی نقصان یا تکلیف کی ضرورت ہو تو اس سے بھی پس پشت نہیں کیا جائے۔ قربانی، اخلاقی اصولوں کے ساتھ کسی کی وابستگی کا مظہر بن جاتی ہے، دوسروں کی بھلائی کو ترجیح دینے یا عالمی اخلاقی قوانین کو برقرار رکھنے کی آمادگی کا مظاہرہ کرتی ہے، چاہے اپنے لیے نتائج کچھ بھی ہوں۔

مزید برآں، کانٹ کا استدلال ہے کہ جھکاؤ یا خود غرضی کے بجائے فرض سے کام کرنا اخلاقی قدر کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ اس طرح، عظیم تر بھلائی کے لیے اپنے مفادات یا خواہشات کو قربان کرنا اخلاقی فضیلت کی اعلیٰ ترین مثال ہے اور جو اخلاقی کردار کی آبیاری میں معاون ہوتا ہے۔

(۱۱)

“شال اور سبی دونوں اطراف سے پانچ جگہوں پر بولان روڈ مکمل بند اور ہمارے کنٹرول میں ہے۔” آپریشنل کمانڈر کو وائرلیس سیٹ پر اطلاع دیتے ہوئے ایس ٹی او ایس کے یونٹ کمانڈر حیدر شیر پر اطمینان اور فخریہ انداز میں بول رہا تھا۔
“سنگت ایمبولینس اور گاڑیوں میں موجود خواتین و بچوں اور مریضوں کا خاص خیال رکھنا اور انہیں راستہ فراہم کرنا، باقی لوگوں پر تھوڑا بھی شک ہو تو ان کا شناختی کارڈ ضرور چیک کرنا۔ اگر کوئی فوجی یا ریاستی ایجنٹ ملا تو اس کو اسی جاگہ پر شوٹ کردینا۔” آپریشنل کمانڈر نے تفصیلات سننے کے بعد سختی سے ہدایات دینے لگا۔
“کچھ لیویز والے ہمارے ہاتھ میں ہیں اور سب مقامی بلوچ ہیں۔ ان کا کیا کریں؟” حیدر شیر کمانڈر سے استفسار کرنے لگا۔
“ان کے ہتھیار لے لو پھر انہیں سمجھا کر چھوڑ دو” آپریشنل کمانڈر نے جواب دیا۔
“ایک چیز کا خیال رکھنا کہ جب کوئی بڑا کانوائے یا بکتر بند وغیرہ نظر آئے یا ہیلی کاپٹروں کے زریعے کمانڈو اتارنے کی کوشش کی گئی تو فرنٹ لائن پر فتح اسکواڈ خود آگے بڑھے گی۔ ایس ٹی او ایس پیچھے سے کور میں ہوگا۔” آپریشنل کمانڈر ہدایت جاری کرتے ہوئے بولتا ہے۔

(۱۲)

“کولپور پوری طرح ہمارے کنٹرول میں ہے، سنگت مکمل تیار ہیں۔” بختیار دوسری طرف سے آپریشنل کمانڈ کو اطلاع دیتے ہوئے کہتا ہے۔
آپریشنل کمانڈر حیدر شیر کو احکامات جاری کرنے کے بعد دوسرے مخابرے پر بختیار کو ہدایات دیتے ہوئے کہتا ہے”بس کوشش کرنا، دوستوں کا خیال رکھنا، اور کنٹرول کو طویل عرصے تک اپنے ہاتھوں میں رکھنا۔”
“آپ بے فکر رہیں، رات کے بارہ بج چکے ہیں اور ابتک بزدل دشمن کا نام و نشان نہیں” بختیار دوسری طرف سے ہنستے ہوئے کہتا ہے۔

(۱۳)

زمانے کی تاریخ میں ہمیشہ سے دو قوتیں محبت اور قربانی، ستاروں کی طرح صف بندی کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں محبت پھولتی ہے، وہاں قربانی جڑ پکڑتی ہے۔ محبت سورج کی طرح اپنی سنہری روشنی ڈال کر تاریک راتوں میں امید کی کرن بن جاتی ہے۔ محبت انتونی کو گلے لگانے کا کلیوپیٹرا کا جذبہ ہے، عقیدت کی ایک کہانی، ایک ابدی فضل ہے۔

قربانی، ایک دریا ہے، جو اپنا راستہ خود تراشتا ہے، جو آزمائشوں کے پہاڑوں سے گزر کر اسے اپنے اندر جذب کردیتا ہے۔ قربانی سیزر ہے، جو روبی کون کا دریا، روم کی شان کے لیے پار کرتا ہے۔

محبت ایک میٹھی اور الٰہی راگ ہے، جو دلوں کی سمفنی، تال میں جوڑتا ہے۔ محبت ٹرسٹن اور آئسولڈ ہے، جو تقدیر کے حکم کا پابند ہے۔ قربانی، فرض کا ایک خاموش سپاہی ہے۔ ایک محافظ جو محبت کے حرم کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ جان آف آرک ہے، جو اپنی زندگی فرانس کی عزت کے لیئے قربان کردیتی ہے۔

محبت، ایک پھول ہے، جو دل کی گہرائیوں میں کھلتی ہے۔ یہ ٹرائے کی ہیلن ہے، اور اس کی خوبصورتی ہے، جس کی محبت کے لیے، سلطنتیں عروج و زوال پاتی ہیں۔ اور قربانی رومیو اور جولیٹ ہے، جو خود کو موت میں ڈھونڈتے ہیں۔

(۱۴)

“ہاں سلال جان، کیوں آج اتنی دیر سے خاموش و تنہاء بیٹھے سوچ رہے ہو؟ آج مغرب کے بعد آپریشن درہ بولان شروع ہوگا اور تم اپنی محبوبہ نازل کے سوچوں سے ہی نہیں نکل رہے۔” حافظ زیشان سلال کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تنگ کرنے کیلئے مزاقا بولا۔
“آپ کو کیسے پتہ چلا کہ آج نازل بہت یاد آرہی ہے، بار بار میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہی ہے، مجھے حسب روایت بہت تنگ کررہی ہے۔” سلال نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
“یار، جب دوست کا درد و خوشی اس کی چہرے سے نہیں سمجھا پھر وہ دوست نہیں ہوسکتا۔” زیشان نے شرارتی اندازہ میں جواب دیا۔
“چھوڑو یار حافظ، تنگ مت کرو، جاو نماز پڑھو اپنا” سلال نے مذاق سے چڑتے ہوئے بولا۔
“نہیں یار آپ بتاو کیا سوچ رہے ہو، نازل کے بارے میں” حافظ بار بار تنگ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
“یار اور کچھ نہیں، بس یہ سوچ رہا تھا کہ آج اگر بولان کے خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں نازل میرے پاس ہوتی تو کیا بات ہوتی۔ ہم ہنستے، مذاق کرتے اور بولان کی باتیں کرتے، لیکن ایسا اس جنم میں ناممکن ہے، اور اگلے جنم کا چانس بھی نہیں” سلال نے قہقہہ لگا کر کہا۔
“بس ابھی چھوڑ دو نازل کو” حافظ بولا
“وہ تو میں نے چھوڑ دیا عشق وطن کی قیمت پر، مگر سوچتا ہوں، جب اس کو معلوم پڑے گا کہ آپریشن درہ بولان میں سلو بھی شہید ہوا تو اس پر کیا گزرے گی۔ پھر ضرور درد کی کفیت میں گلہ کریگی، پتہ نہیں مجھے معاف کریگی یا نہیں لیکن تنظیم کے اصولوں کی پاسداری کی خاطر میں نے اس راز کے بارے میں اسے اشارہ تک نہیں دیا۔” سلال سنجیدگی سے بول پڑا۔
“چلو یار کھانا کھاتے ہیں، ابھی جانے کا وقت قریب ہے۔” زیشان اٹھ کر کپڑے جھاڑتے ہوئے بولا۔
“ہاں یار، آج آخری کھانا ہے، ذرا لطف اٹھا کر کھاتے ہیں۔” سلال اٹھ کر زیشان سے ہمقدم ہوا۔ اور دونوں آھستہ آھستہ باتیں کرتے ہوئے اٹھتے دھوئیں کی جانب بڑھنے لگے، جہاں فدائین کیلئے آخری کھانا پک رہا تھا۔

(۱۵)

“پوسٹ پر مکمل قبضہ ہوچکا ہے، ہم پر ایک ڈرون حملہ ہوا، کچھ دوست معمولی زخمی ہوئے ہیں اور فدائی نادر جان بالی نے شہادت قبول کرلی۔” کمانڈر شہزاد آپریشنل کمانڈ کو اطلاع دیتے ہوئے کہتا ہے۔
” دوستوں، بالی سرخرو ہوا، وہ اس منزل پر پہنچ گیا، جس کے ہم سب راہی ہیں، زخمی دوستوں کی کیا حالت ہے؟” آپریشنل کمانڈ نے استفسار کیا۔
“زخمی دوستوں کی حالت سنجیدہ نہیں، انہیں فرسٹ ایڈ دیکر ہم دوبارہ اپنی پیشقدمی جاری رکھینگے۔” شہزاد نے کمانڈ کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔

(۱۶)

“کمانڈر گنجل کی یونٹ کی طرف بہت بڑی جنگ شروع ہوچکی ہے، دھماکوں اور ڈرون و ہیلی کاپٹروں کی آوازیں آرہی ہیں، دشمن کا زیادہ فوکس اسی طرف ہے اور گنجل والوں سے رابطہ بھی منقطع ہے۔” کمانڈر نذیر واھگ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر مخابرے پر آپریشنل کمانڈر کو اطلاع دیتے ہوئے زور سے بول رہا تھا۔
“جب تک گنجل سے رابطہ نا ہو، آپ اس وقت تک اپنے ایریا کو کنٹرول میں رکھنا، اس طرف پیش قدمی نہیں کرنا۔” آپریشنل کمانڈر نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا۔
“جی کمانڈر، ہمارا علاقہ مکمل ہمارے کنٹرول میں ہے، آپ بے فکر رہو، بس پریشانی گنجل والے دوستوں کی ہے۔”
“نہیں نہیں، پریشانی کی کوئی بات نہیں، گنجل اپنے ایریا سے اچھی طرح واقف ہے اور خود ایک ہوشیار اور مہارت رکھنے والا ساتھی ہے، اس کے پاس سازو سامان بھی کافی ہیں۔ اس کے ساتھ کافی تعداد میں بریگیڈ، ایس ٹی او ایس اور فتح اسکواڈ کے دستے بھی موجود ہیں، وہ دشمن کو منہ توڑ جواب دیگا۔” آپریشنل کمانڈ نے جواب دینے کے بعد کمانڈر نذیر سے مزید معلومات لیتے ہوئے پوچھا “نذیر، آپ لوگوں کو کوئی مشکل تو نہیں ہورہی۔”
“بس ڈرون اور ہیلی کاپٹر تنگ کررہے ہیں، ہیلی کاپٹروں پر دہ شکہ اور راکٹوں سے ٹھیک ٹھاک حملہ ہوا، اب وہ نزدیک نہیں آرہے ہیں، بس بہت اوپر اوپر سے چکر لگارہے ہیں، اور ڈرون تھوڑا مسئلہ پیدا کررہے ہیں، ان سے آنکھ مچولی جاری ہے۔” نذیر نے تفصیلات بتائیں۔
“ان کے کتے فوجی کیا کررہے ہیں؟” آپریشنل کمانڈ نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
“لعنت ہے ان پر، وہ چوہوں کی طرح پتہ نہیں کس بل میں چھپے ہوئے ہیں، جیسے ہی سرنکالتے ہیں تو سرمچار انکے سروں میں گولیاں مار دیتے ہیں۔” نذیر نے ہنستے ہوئے کہا۔
“بس اب کوشش کرو، تھرمل گروپ کوالرٹ کردو” آپریشنل
کمانڈ نے ہدایت دی۔

(۱۷)

“ہیلو ہیلو آپریشنل کمانڈ” پروفیسر بار بار وائر لیس سیٹ پر ایمرجنسی کی حالت میں آواز لگا رہا تھا۔
“جی پرفیسر سنگت کہو۔” آپریشنل کمانڈ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا
“آپ کا فیصل سے رابطہ ہورہا ہے؟”
“نہیں”
“فیصل بتا رہا ہے کہ میرے دو دوست شہید ہوچکے ہیں۔” پروفیسر نے ٹوٹتے ہوئے آواز میں اطلاع دی۔
“پروفیسر، آپ کی آواز ٹھیک سے نہیں آرہی، فائرنگ کی آواز میں آپکی آواز کٹ رہی ہے۔”
“ہیلو ہیلو! کمانڈر اب کیسا ہے۔”
“اب پہلے سے بہتر ہے۔”
“فیصل سے میرا رابطہ ہورہا ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ دو دوست شہید ہوچکے ہیں، ایک بریگیڈ کا اور ایک فتح اسکواڈ کا ساتھی ہے اور تین دوست زخمی ہیں۔” پروفیسر نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔
.”اللہ خیر کرے، کون کون ہیں شہید ساتھی۔”
“میں کنفرم کرکے بتاتا ہوں”
“اوکے”

“بریگیڈ کے ساتھی زیشان رند اور فتح اسکواڈ کے ساتھی کاشف شاہوانی شہید ہونے والے ساتھیوں میں شامل ہیں۔” پروفیسر نے تھوڑی توقف کے بعد اطلاع دی۔
“اڑے قربان سنگتوں، ندر پہ شہیدان بلوچستان، زخمی کیسے ہیں؟” آپریشنل کمانڈ نےدریافت کیا۔
“ایک سیرئیس ہے، دو ٹھیک ہیں۔”
“بس فیصل کو بولو، پہلے زخمیوں کو نکالو”
“جی کمانڈر” پروفیسر نے یہ کہتے ہوئے رابطہ منقطع کردیا۔

(۱۸)

سارتر کا وجودیت پسند فلسفہ کسی کے وجود کی تشکیل میں انفرادی انتخاب اور ذمہ داری کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ کائنات میں موروثی معنی یا مقصد کی عدم موجودگی کے باوجود انسان بنیادی طور پر اپنے اعمال کا انتخاب کرنے اور اپنی اقدار تخلیق کرنے میں آزاد ہے۔ تاہم، یہ آزادی ذمہ داری کے بوجھ کے ساتھ آتی ہے، کیونکہ افراد کو اپنے انتخاب کے نتائج کی مکمل ملکیت حاصل کرنی چاہیے۔

قربانی کے تناظر میں، سارتر کا فلسفہ انفرادی آزادی کے مستند اظہار کے طور پر خود قربانی کی وجودی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ وہ تجویز کرتا ہے کہ افراد کو آزادی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان وجوہات کے لیے قربان کرنے کا انتخاب کریں جنہیں وہ بامعنی یا قابل سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ غیر یقینی یا مایوسی کے عالم میں بھی۔ اپنی مرضی سے قربانی دے کر، افراد اپنی خودمختاری پر زور دیتے ہیں اور اپنی منتخب اقدار سے وابستگی کی تصدیق کرتے ہیں، اس طرح ان کے وجود میں معنی پیدا ہوتا ہے۔

سارتر کا استدلال ہے کہ قربانی کا عمل فرد کی اپنی فوری خواہشات سے بالاتر ہونے اور انسانیت کے وسیع تناظر کو اپنانے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسروں کے لیے یا کسی اعلیٰ مقصد کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے میں، افراد اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے ارد گرد کی دنیا کے ساتھ اپنے باہمی تعلق کی تصدیق کرتے ہیں۔

(۱۹)

انتیس جنوری تین بجے دوپہر کے وقت کھانے کے بعد آپریشن کی تیاری کے سلسلے میں لالا قاسم، جمال مہروان اور نظام جان غسل کی تیاری میں مصروف تھے۔
“واہ بھائی، آپ دوست حوروں کی دیدار کے لیئے اپنے آپ کو سجا رہے ہو۔” شاویز نے آتے ہی مسکراہٹ کے ساتھ سب کو مخاطب کیا۔
“بیزار ہم کو حوروں سے، حور تو سارے طارق جمیل کے ہیں، ان کا ٹھیکیدار تو وہ پنجابی ہے، وہ ہم بلوچوں کو کہاں کوئی حور گوارا ہوگا۔ ہمارا وطن، ہمارے نسل کو ملے اس سے بڑا حور اور جنت ہمارے لیئے کیا ہوگا۔” جمال جان نے غسل کے لیئے پانی گرم کرتے ہوئے اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں جواب دیا۔
“نہیں یار، اس دنیا میں ہمیں بیوی نصیب نہیں ہوئی، ایک آدھ حور تو ہمارا حق ہے۔” لالا نے مضحکہ خیز انداز میں جواب دیا۔
“حور مور کچھ نہیں، بس دعا کرو آج ہمارا آپریشن کامیاب ہواور ہم سرخرو ہوجائیں اور ہماری لاشوں کو ہماری قوم دلہن کی طرح سجا کر بارات کی طرح لیجاکر زمین کی آغوش میں دفن کردیں۔” نظام معصومانہ انداز میں دوستوں سے مخاطب ہوا۔

(۲۰)

“سبی کی طرف سے آنے والے فوجیوں کی کمک کو آنے والے کانوائے پر زبردست حملہ کرکے، انہیں ہم نے پسپا کردیا ہے۔” ایس ٹی او ایس کے یونٹ کمانڈر جاوید نے آپریشنل کمانڈ کو اطلاع دی۔
“واہ واہ قربان قربان سنگت، چھوڑنا نہیں انکو مچھ میں داخل ہونے۔”آپریشنل کمانڈ نے جوش میں جواب دیا۔
“کمانڈربریگیڈ عطاء جان، آپکی پوزیشن کیا ہے؟” آپریشنل کمانڈ نے وائرلیس سیٹ کا چینل بدلتے ہوئے دریافت کیا۔
“دشمن اپنے ہیڈ کوارٹر میں چھپا ہوا ہے، اور فدائی آگے بڑھتے جارہے ہیں، راستے میں جو بھی فوجی مل رہا ہے، اسے ہم وہیں پر ڈھیر کررہے ہیں۔ باقی ہم اس انتظار میں ہیں کہ دشمن بڑی تعداد میں نکل کر ہمارا مقابلہ کرے لیکن وہ دکھائی نہیں دے رہا، بس دور دور سے مارٹر فائر کررہے ہیں اور ہیلی کاپٹر و ڈرون فضاء میں گردش کررہے ہیں۔ یقین مانو اس بزدل دشمن سے لڑائی نے ہمیں بور کردیا ہے، یہ ڈھنگ کا جنگ بھی نہیں جانتا۔” عطاء شیخ نے دشمن کے ہیڈکوارٹرز کے اندر سے کمانڈر کو معلومات سے آگاہ کیا۔
“بس یہ بزدل دشمن ایسا ہی ہے، بس ہم بلوچوں کو ہمت کی ضرورت ہے ورنا اس دشمن کی اوقات کچھ نہیں۔” آپریشنل کمانڈ نے جواب دیا۔
“بالکل سنگت۔”
“اور باقی دوست کیسے ہیں؟”
” صدام جان اور ودود جان تھوڑی دیر قبل انتہائی بہادری سے لڑنے کے بعد شہید ہوگئے اورنظام جان زخمی حالت میں ہے۔”
“ندر پہ صدام و ودود جان۔” آپریشنل کمانڈ نے گرجتی آواز میں کہا۔

(۲۱)

اکتیس جنوری کی شام پانچ بجے آپریشن درہ بولان کے تمام کمانڈورں اور سرمچاروں کو بی ایل اے کی سینٹرل کمانڈ نے حکم جاری کی کہ وہ سات بجے آپریشن ختم کرکے نکل جائیں۔ سب سے پہلے فتح اسکوڈ اور آخر میں ایس ٹی او ایس کے دوست واپس ہوئے۔ سب بولان کے پہاڑوں کی آغوش میں واپس لوٹ رہے تھے، چہروں پر کامیابی کی تمانت اور مسکراہٹ تھی اور دلوں پر افسردگی کا ایک وزن تھا کیونکہ 13 ساتھی وہ پیچھے چھوڑ کر آئے تھے۔

(۲۲)

جہانِ تخیل اور دنیائے حقیقت میں ایسے دائرے بھی ہیں، جہاں حقیقت اور فسانے آپس میں جڑے ہوئے ملتے ہیں، جہاں خواب خواہش کے پروں پر اڑتے ہیں اور سچائی کہانیوں کے ساتھ ناچتی ہے۔ اس آسمانی دائرے میں سرحدیں مٹ جاتی ہیں۔ جہاں تخیل کا دائرہ خواب بنتا ہے اور حقیقت کی بانہیں افسانے سے گلے ملتے ہیں۔ جہاں فضاؤں میں افسانوں کی سرگوشیاں گونجتی ہیں اور لیجنڈز پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں دنیا جادو سے ملتی ہے اور ایسی کہانیاں تیار کرتی ہے، جو ہمیشہ کے لیے پنپتی رہتی ہیں۔ اس جادوئی فضا میں جہاں حدیں مٹ جاتی ہیں، فنکار اور خواب دیکھنے والے اپنی جگہ تلاش کرتے ہیں کیونکہ یہاں حقیقت اپنی آواز تلاش کرتی ہے اور اس دائرے میں فسانہ اورحقیقت مل کر خوشیاں مناتے ہیں۔ ہم اس دنیا میں گھومتے ہیں، جہاں حقیقت اور فسانے آپس میں محو رقص ہیں کیونکہ سچائی اور یقین کے اس رقص میں، ہمیں وہ خوبصورتی ملتی ہے جو ہم تصور کرنا چاہتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔