لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے احتجاج جاری

121

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کےبھوک ہڑتالی کیمپ کو 5293 دن ہوگئے۔ نوشکی سے سیاسی سماجی کارکنان فیض امیر بلوچ، میر محمد بلوچ اور نذیر احمد بلوچ نے آکر اظہار یکجہتی کی۔

وبی ایم پی کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی خفیہ ادارے، ایف سی اور دیگر ایجنسیوں، پیر ملٹری فورسز کے مظالم سے ہر ذی شعور انسان آگاہ ہے کس طرح مسلمانیت کے لبادے میں چھپے پاکستانی فورسز آئے روز بلوچ نوجوانوں بزرگوں کے اغواء اور مسخ شدہ لاشوں کے ذریعے انسانیت کی دھجیاں اڑارہی ہیں مظالم کی ایسی داستانیں کہ انسانیت کانپ جاتی ہیں تاریخ عالم پر اگر ہم نظر دوڑاہیں تو پرامن جدوجہد میں نشیب وفراز کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے اپنی منزل کو پہنچ چکی ہیں یا وہ سفر میں جاری ہیں یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تشدد اور پر امن جدوجہد لازم وملزوم ہیں۔ نو آبادیاتی نظام یا قبضہ گیر کے لیے اپنی نظام اور قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے تشدد لازمی جز ہے۔ عین اسی طرح شعور زات کو بیدار کرنے میں پر امن جدوجہد اہم کردار ادا کرتا ہے تشدد محض غیض و غضب نہیں ہے وحشی حبتوں کا اظہار ہے نہ ہی یہ احتجاج ہے بلکہ پرامن جدوجہد کے سفر میں یہ وہ عمل ہے جسکے ذریعے انسان خود کو تخلیق کررہاہے ۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ پرامن جدوجہد پہ تشدد بالکل انوکھی اور غیر متوقع نہیں ہیں اگر ہم زیادہ دور نہ جاہیں قابض ریاست کا جائزہ لیں جو پاکستانیوں نے بنگالیوں کے ساتھ کیے تو کچھ قبضہ گیر کی شکل واضح ہوجاہیگی بنگلہ دیش کے رہنماوں نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج انسان نہیں آپ اس بات پر غور کریں کہ انھوں نے دو سال کے بچے کو بھی زندہ نہیں چھوڑا خواتین کی بھی جانیں لیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کے سینے میں دل نہیں، پاکستانی حکمران یہ سمجھتی ہے کہ ہربلوچ سرمچاروں کا پیروکار ہے اور ہر شخص کو ختم کردینا چاہیے۔