جنگ زدہ”بلوچستان“ اور نوآبادیاتی انتخابات ۔ رامین بلوچ

225

جنگ زدہ”بلوچستان“ اور نوآبادیاتی انتخابات
تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

قابض اور امپریل کا یہ طرز عمل آج کی نہیں کافی پرانی ہے۔ جب وہ کسی ملک کو اپنی نوآبادی بناتاہے تو صرف وہ لوٹ مار تک محدود نہیں ہوتا، وسائل پر اجارہ داری اور ملکیت قائم نہیں کرتا،محض تشدد اور جارحیت سے اپنی تسلط اور جبری حاکمیت قائم نہیں رکھتے۔ بلکہ وہ اس قوم کو ذہنی،سیاسی، نفسیاتی،تعلیمی،تہذیبی اور ثقافتی طورپرمغلوب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔وہ اس قوم کو اس کی ثقافتی ورثہ سے محروم کرنے کے ہر وہ مجرمانہ عمل سے گزرتاہے۔جس سے ان کی تسلط کو ایندھن مل رہی ہو۔وہ ان کی مزاحمت اور آزادی کی جذبہ کی بنیادوں پر ہاتھ صاف کرتا ہے تاکہ ان کی برتری وبالادستی میں کوئی دراڑ یا مشکل پیدا نہ ہو۔ وہ اپنی قبضہ کو دوام دینے کے ہروہ ہتھکنڈے ستعمال کرتاہے جو ان کی مفادات کی پشت پنائی میں مددگار ہو۔

آج بلوچستان میں یہ صورتحال نوآبادیاتی فطرت اور ذہنیت کی ایک تصویر ہے۔جو ہمیں ان لوگوں کی شکل میں نظر آتاہے۔جواپنی ماضی، اپنے آبائی ورثہ، اپنی تاریخ اور اپنی سیاست سے عملا لاتعلق ہوکر رہ چکے ہیں۔ بلوچستان جنگ زدہ ہے لوگ غائب ہورہے ہیں جبری گمشدگی کاشکار ہورہے ہیں۔آبادیوں کو مسمار کیا جارہاہے فیک انکاؤنٹرمیں بلوچ فرزندان شہید ہورہے ہیں۔ نوجوان عقوبت خانوں کی اذیت ناک عذابوں سے گزررہے ہیں۔ایک کے بعد ایک اور دلخراش واقعہ بلوچستان میں معمول بن چکاہے۔ لیکن ہم میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی ضمیر کو نوآبادیاتی منڈی میں اشیائے جنس کی مانندبیچنے کے لئے کوئی موقع بھی ضائع نہیں کرتے۔

ضمیر کی ان بیوپاریوں کو بلوچستان کادرد، گمشدہ افراد کے کرب اور اذیت سے کیا دلچسپی؟ انہیں ان ماؤں سے کیاغرض جن کی گودیں اجڑ گئی ہیں؟ انہیں ان بہنوں کی بہتے آنسوؤں اور چیخوں سے کیا لینا دینا؟ ان لاپتہ افراد سے کیا واسطہ جو بازیاب ہوکر بھی زندہ لاش بن چکے ہوتے ہیں۔ ان بہنوں سے کیا ہمدردی؟جنہیں نوآبادیاتی پولیس اسلام آباد کی سڑکوں پر گھسیٹتی ہے،تشدد کرتی ہے، حراست گاہوں میں بند کرتی ہے۔ انہیں اپنی قوم کی آزادی، تاریخ اور شناخت سے کیا تعلق؟ جو وزارت اور اقتدار کی کرسی کے لئے ریاست کی چیرہ دستیوں پرمجرمانہ طور پرخاموش ہے! جو حق صرف طاقت کالونائزر اور قبضہ کو سمجھتے ہیں۔ ان کی سیاسی پیرائے میں وہ حق پہ نہیں جو اپنی آزادی اور شناخت کے حصول کے لئے اپنی جانوں سے گزر کر اپنی زندگیاں اور اپنی خاندانوں کو داؤ پہ لگاچکے ہیں۔

قبضہ گیر سے اتنی گہری رشتہ و سیالی کہ وہ بدعنوان منافق اور جھوٹے بن چکے ہیں۔تاریخ کے نزدیک ایسے لوگ جن کے تاج امپریل کی جوتی کے نوک میں گری ہووہ تاریخ میں سردار امام،پیشو،ا لیڈر کے طور پر یاد نہیں کئے جاتے ہیں۔وہ تاریخ کے اچھوت ہیں ان کی سر پہ جتنی برتر منصب کے تاج ہو تاریخ انہیں کم تر اور اچھوت کے طور پر یاد رکھے گا۔

بلوچستان میں ایک دفعہ پھر نو آبادیات انتخابات کی واویلا ہے۔ الیکشن کا ماحول بنایا جارہاہے۔پارلیمانی ٹکٹیں ریوڑیوں کی طرح بانٹا
جارہاہے ہیں۔ وزارتوں کے فارم بھرے جارہے ہیں۔ بلوچستان نومین لینڈ بن چکاہے۔ اور یہ امن کی بانسری بجائے جارہے ہیں۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ نوآبادیاتی پارلیمنٹ مقبوضہ اقوام کے لئے جبر وقہر اوربرتری و بالادستی کا بنیادی حربہ ہوتاہے۔ جس کے زریعہ ریاست اپنی قبضہ کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بلوچستان میں ریاستی انتخابات کی ستر کی دہائی سے لے کر اب تک کے بارہا تلخ تجربات کٹھ پتلیوں کے زریعہ حکومت اور الیکٹیبلز کو وزارت کی کرسیوں پر براجمان کرنے کی مکروہ دھندہ کی تاریخ پرانی ہے۔

ماضی کے کئی انتخابات جس کی تصدیق عالمی زرائع ابلاغ کی جانب سے رپورٹ کئے گئے جن مین بلوچستان میں ٹرن آؤٹ تین فیصد بھی نہیں رہا،کئی پولنگ بوتھ سنسان رہیں عوام گھروں سے نہیں نکلے،بلوچ عوام کی جانب سے ان بیلٹ بکسوں میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا۔ بلوچ عوام ووٹ کو اس کھیل سے اکتاگئی ہے،بیزار ہوچکی ہے۔لیکن بلوچستان کے اس خون آشام ماحول میں ایک دفعہ پھر انتخابی ماحول کا جشن منایاجارہاہے۔ ایک دفعہ پھر بلوچ عوام کو ووٹ کی جانب قائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ منتیں اور سماجتوں کا ماحول بنا یا جارہاہے۔بلوچ عوام کو پانی،نوکری سڑکوں کی اس گورکھ دھندہ میں الجھانے کی مکروہ حربہ استعمال کئے جارہے ہیں۔ان تاریخی بزدلیوں کے زریعہ سودے بازی کی اس سیاست میں بلوچ عوام کی تقدیر سے ایک دفعہ پھر کھیلاجارہاہے۔ ریاست کی الیکشن مہم جوئی کا مقصد صرف دنیا کو گمراہ اور باور کراناہے کہ بلوچستان میں آزادی کی کوئی تحریک نہیں اور یہاں امن و آشتی ہے۔ اس جنگ زدہ اور متنازع خطہ میں گواہی اور ثبوت کے لئے انتخابات کو بطور جواز پیش کیاجارہا ہے اور اس میں ریاست کے وہ خام مال بھی حصہ دار ہیں جو بلوچ دوستی کی بات کرتے ہیں ان کی آئین و منشور بلوچستان اور بلوچ قومی سوال کے ارد گرد گھومتی ہے۔

ایک طرف وہ ہر شراکت اقتدار کے بعد مایوسی کا رونا روکر پھر عوام میں آتے ہیں کہ ہم تو با اختیار نہیں تھے۔ ہمارے تو وہاں سنی ہی نہیں جاتی لیکن ہر بار کی طرح وہ اس ٹوپی ڈرامہ میں عوام کی اعتماد جیتنے کے لئے دوسری بار امپرلسٹ کے آلہ کار بننے کے لے خود کو بلوچ نمائندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے لئے اب یہ عیب نہیں رہا۔ اس جنگ زدہ خطے میں ان کی نظر میں اقتدار کی کرسی معنی رکھتی ہیں۔ نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی جو بلوچ قوم دوستی کی اپنی تشخص ابھارنے کے لئے کثر بیشتر محفلوں میں جذباتی بن جاتے ہیں، مگر مچھ کے آنسو بہائے جاتے ہیں۔ لیکن ہر الیکشن کے دور میں ان کی جذبات جھاگ کے طرح بیٹھ کر ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔وہ ریاست کے تمام تر نا انصافی جبر و جارحیت سے درگزر کرکے اس کے خیراتی لنگر میں قطار بن جاتے ہیں۔

مقبوضہ قوم کے لئے پارلیمنٹ مجرموں کا ایک ٹولہ اور قبضہ گیریت کی استحکام کے لے ایک ہتھیار ہے۔ جب کہ ان ریاستی اشرافیہ کے لئے مناٖفع خوری کا ایک دکان ہے۔ کیونکہ کٹھ پتلی پارلیمنٹ کا اس سے زیادہ اور کوئی حیثیت نہیں کہ وہ بلوچ مستقبل سازی کے حوالہ سے کوئی بل یا قرار داد پاس کرسکے۔ یا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے حوالہ سے کوئی مرکزی کردار ادا کرسکے۔اس کی نوآبادیاتی تاریخ میں
ایسے کوئی قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آیا کہ جس کی کوئی مستند تعریف کی جاسکے۔ بلکہ یہ ایک کار پوریٹ برانڈ ہے۔جسے سیاست اور جمہوریت کے ایک میدان کے طور پر پیش کیا جارہاہے۔یہ ایک دلکش کارپوریٹ کاروبار ہے۔ جس میں ان سیاسی جتھوں کے مالی و سیاسی مفادات پوشیدہ ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ قوم دوستی کے نام لیوا کچھ سیاست دان اس سارے گورکھ دھندے کا روح روان بنے ہوئے ہیں۔ جو ہر الیکشن میں حصہ داری کے لئے ٹشو پیپر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ان کی مافیائی اور مجرمانہ سیاست ریاستی جبر کے لئے ایک کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نوآبادیاتی انتخابات میں حصہ داری ریاستی قبضہ کو مزید(سپیس) دیتی ہے۔ اور ان جماعتوں کی حیثیت نوآبادیاتی سہولت کاری سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا، لیکن یہ اپنے سہولت کارانہ کردار پہچانتے ہوئے بھی یہ جواز بناتے ہیں کہ اگر ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو ریاست اپنے کاسہ لیسوں سے یہ خانہ پر کرے گا۔یا دوسری طرف 2008 کے الیکشن بائیکاٹ کااحسان آج بھی بلوچ قوم کے سرپہ بار گران کے طور پر دہرائی جاتی ہے۔ لیکن اگر دیکھاجائے تو یہ انتخابات میں حصہ دار ہونے کے باوجود بھی کٹھ پتلی بن کے رہ جاتے ہیں۔عوامی نمائندگی کا دعویدار یہ لوگ کھبی عمران خان اور کھبی شریف فیملی کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ اور کھبی قدوس بزنجو کو اعتماد کاووٹ دیکر ریاست کی ہمنوائی سے نہیں نکل سکتے۔ان کا کردار صفر رہ جاتاہے۔ اور ہر بار وہ ریاست کے اس نوآبادیاتی گول چکر کے ہوکے رہ جاتے ہیں۔

جمہوری جدوجہد کے لئے صرف نوآبادیاتی پارلیمنٹ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اورنہ ان سے کوئی تقاضہ کرتاہے کہ وہ بندوق اٹھاکر جدوجہد کریں۔ اس کے لئے سیاسی عوامی مزاحمت کا راستہ موجودہے۔لیکن وہ اس کا انتخاب اس لئے نہیں کرتے کہ ان کے مالی اور سیاسی مفادات ریاستی عملداری میں پوشیدہ ہے۔ فیس سیونگ کے لئے وہ کھبی کھبی بلوچ فرزندوں کی بازیابی کی باتیں کرتے ہوئے حادثاتی ہوجاتے ہیں۔لیکن عملی طور پر یہ مستقل اور سنجیدہ قومی جدوجہد میں حصہ دار نہیں ہوتے۔ اور نہ ہی یہ رضاکارانہ طور پر قومی تحریک آزادی کا حصہ نہیں بنتے ہیں۔ فرض کریں اگر وہ بلوچ فرزندوں کی گمشدگی کا ذکر کرتے ہوئے اگر یہ احسان کرتے ہیں کہ ہم نے تو لاپتہ افراد کے لئے تو ان اسمبلیوں میں گلے پھاڑ پھاڑ کر آوا زاٹھائی ہیں۔ لیکن انہیں یاد دلانا چاہتے ہیں بلوچ مسئلہ صرف انسان حقوق کا مسئلہ نہیں،اصل مسئلہ قومی آزادی ہے۔ یہ آوازیں تو پاکستانی ریاست کے انتظامی عمل کے طرف دار بھی اٹھاتے ہیں۔ حالیہ بلوچ خواتین کے احتجاج میں بلوچ قوم کے ساتھ ایسے لوگ بھی ہم آواز ہیں۔ جن کا تعلق جماعت اسلامی کے لوگوں سے بھی ہیں۔ جو حوصلہ افزاء ہے۔ لیکن بلوچ سیاست کے دعویدار جو اس سرزمین کے باسی ہیں ان کا تعلق اس قوم سے ہیں۔ ان کا رشتہ اس زمین سے ہیں جن کی امرت دھار سے وہ پلی بڑی ہیں۔ان کی سیاست کے زمہ داریاں اس سے بڑھ کر ہے۔وہ اظہار یکجہتی سے جان خلاص نہیں کرسکتے۔ بلکہ انہیں براراست قومی جدوجہد کا حصہ بننا چاہیے۔ اگر وہ سبھاش چندر بوس یا بھگت سنگھ نہیں بن سکتے تو گاندھی اور مولانا آزاد اور نہرو تو بن سکتے ہیں۔ جنہوں نے ہندوستان کی مکمل سوراج کے لئے انگریز قبضہ کے خلاف جدوجہد کی۔ یہ چھ نکات پیش کرتے ہیں لیکن شیخ مجیب الرحمن کا کردار ادانہیں کرسکتے۔جب ان سے بات کی جائے تو طنز کرتے ہیں کہ کتابوں کا ڈھیر لگاکر بلوچ قوم کا مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔یہی الفاظ وہ بابا خیر بخش مری کے بارے میں کہتے تھے کہ دانشوری فلسفہ اور کتابوں سے بلوچ قوم کو آزادی نہیں دی جاتی۔لیکن بابا مری اپنی فکر عمل اور آدرش سے ثابت کردیا کہ آزادی کے لئے جوشیلے تقریریں اتنی کار آمد نہیں ہوتے۔ جتنی ٹھنڈے فلسفہ حکمت عملی اور روایتی سیاست کے بجائے نئے لائحہ عمل کا طریقہ کار، کار آمد ہوتاہے۔

اورآج بلوچستان فکر خیر بخش کا عملی نمونہ ہے۔ ان کی سنت پر ہزاروں بلوچ عمل پیرا ہیں۔ خیر بخش مری نے کہا تھا اگر چہ میں جسمانی طور پر ضعیف العمری کی تقاضوں میں محدود ہوکر رہ گیاہوں۔ لیکن لڑنے اور جدوجہد کی اوصاف کی قدر کرتاہوں۔

وہ محدود نہیں تھا بلکہ وہ اپنے فکرنظریات اور تعلیمات کے زریعہ عملی طور پر لڑرہاتھا،اور آج کی اس روح بلوچستان میں نوآبادیاتی انتظامیہ کے خلاف ہر گلی کوچہ میں لڑرہاہے۔ وہ بلوچستان کا فینن تھا اور ان کی جسد خاکی بھی ان شہداء کے درمیان ہیں۔جو بلوچ آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔ فینن کے وصیت کے مانند جو الجزائری شہداء کے قبرستان الجیریا میں دفن کئے گئے۔ بابا خیر بخش مری بھی بلوچ شہدائے آزادی کی پہلو میں دفن ہیں۔

بلوچ خواتین جو ریاستی جرائم، فیک انکاؤنٹرز اور جبری گمشدگیوں کے خلاف منظم پیمانے پر احتجاج کررہے ہیں۔ ایک طرف ریاستی فورسز ریاست کے اینکرز اور امپرلسٹ کے ٹاؤٹس ان کی آواز اور احتجاج کوختم کرنے کے لئے آخری حد تک جاچکے ہیں۔دوسری جانب مذکورہ پارٹیوں کے لیڈران الیکشن کے لئے تین تین جگہوں میں فارم بھر رہے ہیں۔ان کے اس غداری پر جہاں غصہ بھی آتاہے اور وہاں ان کے اس بکاؤ دلال کردار پر طنز بھی آتی ہے۔

وہ جانتے بھی ہیں کہ قابض کی نظام حکومت کسی نوآبادی کی فلاح ترقی اور بقاء کے لئے نہیں بنائی جاتی۔ بلکہ وہ اسکے زریعہ اپنے قبضہ کوجواز دینا ہوتا ہے۔ لوٹ مار کرنا ہوتاہے جو لوٹتا ہے۔ جو مارتاہے وہ کیسے کسی کو ترقی دے سکتاہے۔
نوآبادیاتی ترقی کے سوچ میں بھی استحصال ہے۔جہاں قبضہ گیریت ہو وہاں آزادی کا سوال ایک فوری نوعیت کا ہوتی ہے کوئی مقبوضہ قوم قابض کو اپنا ہمدرد خیر خواہ اور مسیحا نہیں سمجھتا۔ جہان آزادی اور نجات کا سوال ہو وہان قابض کے ساتھ ہر سمجھوتہ غداری کی ضمرے میں آتاہے۔ غداری کی کوئی بھی درجہ بندی نہیں ہوتی بلوچ اور بلوچستان کا نعرہ دیکر ریاست کے ہاتھوں بیعت سے کوئی اپنے کو بلوچ کا نمائندہ نہیں کہلاسکتا۔چاہے وہ کوئی بھی ہو قابض سے مکمل آزادی کے بعد ہی کسی سماج کی تعمیر نوع کا آغاز ممکن ہے۔

قابض کے ساتھ گٹھ جوڑ شراکت اقتدار اور صوبائی فریم ورک کے بات کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ جدوجہد کے مختلف طریقہ ہیں۔ یہ جدوجہد نہیں رد جدوجہد ہے یہ بلوچ غلامی کو مضبوط کرنے کے ہنر ہے۔ یہ طریقہ کار کثیر الجہتی جدوجہد نہیں ”کثیر الہنر منافقت“ہے۔ یہ بہکانے اور ہاتھ مروڑنے والی سیاست ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی جو ایک طرف حق خودارادیت کے نعرے کو منافقانہ طور پر اپنے منشور کا جزو بناتے ہیں۔ تو دوسری طرف وہ ریاستی فریم ورک میں حصہ دار بننے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاکر اس نعرہ کا حقیقی مفہوم خود اپنی ہی ہاتھوں سے مسخ
کررہاہے۔

حق خودارادیت محض ایک نعرہ نہیں ایک طرز فکر،طرزعمل اور ایک بھر پور جدوجہد کانام ہے۔

حق خوداریت کی جدوجہد پارلیمنٹ اور انتخابی سیاست کے زریعہ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ یہ خالصتا قومی و عوامی بنیادوں پر لڑی جاتی ہے لیکن یہ وعدہ فروش جو احساس شرمندگی کے بجائے قبضہ گیر کے ساتھ ایسے بغل گیر ہوکر گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جیسے وہ بلوچ قوم سے نہیں قبضہ گیر کے کیمپ سے ہیں۔ الیکشن میں حصہ داری بلوچ عوام کی پالیسی اور رائے نہیں یہ ایک”مراعات یافتہ اقلیت“ کی سوچ ہو سکتی ہے جو خود غرضی مفاد پرست اور موقع پرستی اور مفاد پرستی پر ایمان لاچکے ہیں۔

بلوچ قوم الیکشن کو مسترد کرچکاہے۔ نوآبادیاتی الیکشن بلوچ مستقبل کا فیصلہ یاکسی رائے شماری کا متبادل نہیں۔ یہ بلوچ عوام کی رائے نہیں یہ یکطرفہ ذہنیت ہے۔ بلوچستان متنازع اور جنگ زدہ خطہ ہے۔ بلوچستان پاکستان کے نقشہ کا قطعی حصہ نہیں رہا۔اور نہ ہی اس میں کھبی فٹ ہوسکتاہے یکطرفہ الیکشن میں حصہ داری بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد سے کھلواڑ ہے۔ اس صورت میں مذکور ہ جماعتیں بلوچستان میں جاری خونریزی اور نسل کشی میں بلواسطہ زمہ دار ہیں۔ہر گرتے”بلوچ لاش“ ان پارٹیوں کے ماتھے پر کلنک بن کے رہیگا۔

قوم دوست وہ ہوتے ہیں جن کے پاس ایک عظیم انقلابی مقصد ہوتاہے۔جو اپنی زات سے بڑھ کر ایک غیر متزلزل ”یقین آزادی“کے لے اپنا سب کچھ قربان کرتے ہیں۔وہ ہر قربانی کو جدوجہد کی تیز کرنے کی طاقت میں ڈھال لیتے ہیں۔جن کے پاس کوئی شارٹ کٹ وے نہیں ہوتا،جو کسی درمیانی موقف کا سہارا نہیں لیتے۔بلکہ قبضہ کے خلاف آزادی کی جدوجہد کو ہی نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔

قوم دوست وہ بہادر خواتیں اور مائیں اور بہنیں ہیں جو مزاحمت اور جدوجہد کی علامت بن کر اسلام آباد کے سڑکوں پر ریاستی جبر کا پردہ چاک کررہے ہیں۔قومی آزادی کا مقدمہ وہ لوگ لڑرہے ہیں۔جو پارلیمنٹ سے باہر ہے۔ ایسی ہزاروں وزارتیں ایک شہید کی جوتے کے نوک کے برابر نہیں جو بلوچ قوم کی آزادی اور مستقبل کے لئے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کررہے ہیں۔وہ بے لوث اور بہادر خواتین جو جہد مسلسل کے زریعہ بلوچ قوم کی تیسری نسل کا ہاتھ تھامے ہوئے انہیں جدوجہد مشن اور راستہ کی بندھن میں جوڑ رہے ہیں و۔ہ کامریڈ خواتین جن کی ہاتھوں میں پڑھنے کے لے کتابیں، بانٹنے کے لئے پمفلٹ، دیواروں پر لکھنے کے لئے پریشر کلر کی چند ڈبیاں اور اپنی آوازسنانے کے لئے ایک مائیک ان کا کل سرمایہ ہوتا ہے۔ ان پارلیمنٹیریں سے ہزارہا درجہ بہتر ہے۔ جن کے پاس گاڈی بنگلہ اور سرمایہ کے انبار ہونے کے باوجود ریاست کے سامنے سجدہ ریز ہوچکے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔