کتاب: فرانسیسی انقلاب – رویو: آئیشہ بلوچ

230

کتاب: فرانسیسی انقلاب

مصنف: ڈاکٹر مبارک علی

رویو: آئیشہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اصلاح اور انقلاب میں فرق یہ ہوتا ہے کہ اصلاح پرانے نظام کی باقیات کو برقرار رکھتے ہوئے آہستگی کے ساتھ تبدیلی کے عمل کولاتی ہے جبکہ انقلاب کے نتیجے میں خونریزی ہوتی ہے صدیوں کی روایات ٹوٹتی ہیں اور معاشرے کا سماجی ڈھانچہ یکسر بدل جاتا ہے ۔ سماج کو دوبارہ سے تعمیر کرنے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ اور اس دوران معاشرہ انتشار سے گزرتا ہوا استحکام کی جانب جاتا ہے۔

فرانس میں بادشاہت صدیوں پرانی تھی اور بادشاہ کی تاج پوشی میں مذہبی و سماجی رسومات ادا کی جاتی تھیں جو اُس کو مقدس بنادیتی تھیں ۔ بادشاہ کی تابعداری ہر شہری پر لازم تھی۔ فرانسیسی معاشرہ طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ سب سے آخر میں تمام لوگ تھے جن کے کوئی حقوق نہیں تھے ۔

معاشرے میں سخت طبقاتی نظام تھا اُمراء قانون سے بالاتر تھے یہ کوئی ٹیکس بھی نہیں دیا کرتے تھے۔ فوج اور چرچ کی اعلیٰ ملازمتیں بھی ان کے لیے مخصوص تھیں جبکہ متوسط طبقہ اور عام لوگ متفرق ٹیکس ادا کرتے تھے، ان کی آمدنی کا دسواں حصہ جو ٹائٹی (Tith) کہلاتا تھا وہ چرچ کو ادا کیا جاتا تھا، فوجی مہم کے وقت لوگوں سے ٹیکس لے کر جنگی اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔

روشن خیالی کا اصل مقصد یہ تھا کہ فرانس پر چرچ کا مذہبی تسلط تھا، سنسر شپ کی پابندیاں تھیں، دانشوروں کو بطور سزا پیسٹل کے قلعے میں بند کر دیا جاتا تھا۔ پروٹسٹنٹ فرقے کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی نہیں تھی۔ چرچ اتنا طاقتور تھا کہ بادشاہ اور اُمراء بھی اس کے آگے بے بس تھے لیکن ان پابندیوں کے باجو دادیوں، شاعروں، ڈرامہ نگاروں ، فلسفیوں ، موسیقاروں اور آرٹسٹوں نے اس نظام کو چیلنج کیا ۔

کالونیل سٹم میں یورپی طاقتوں کے درمیان تصادم اور جنگوں کو پیدا کیا۔ جب شمالی امریکہ کی تیرہ کالونیز نے انگلستان کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی تو فرانس نے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے اس کی مالی مدد کی۔ جبکہ خود فرانس کی حکومت مالی مشکلات کا شکار تھی۔ اگر چہ یہ کوشش ضرور کی گئی کہ اصلاحات کے ذریعے معیشت کو مضبوط کیا جائے لیکن اس میں نا کامی ہوئی اور فرانس کا مالی بحران انقلاب کی ایک وجہ بن گیا۔

معاشرے کو زیادہ عرصے تک مراعات یافتہ اور محروم طبقوں کو تقسیم کر کے سیاسی استحکام حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ہے۔ جب معاشرہ دو طبقوں میں بٹ جاتا ہے تو اس کی توانائی اور تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں چونکہ مراعات یافتہ طبقوں کو جد و جہد نہیں کرنی پڑتی ان کی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں ۔ اس صورتحال میں اگر انقلاب نہ بھی آئے تو معاشرہ پس ماندہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

بسیٹل کا قید خانہ اذیت کی علامت تھا۔ بطور سزا یہاں مفکرین اور ادیبوں کو بھی ان کے حکمرانوں پر تنقید کی وجہ سے یہاں قید کیا جاتا تھا۔ والٹیر (1778ء) کو بھی یہاں دو مرتبہ قید میں رکھا گیا تھا۔ ڈینٹس دیدرو (1784-d) کو بھی یہاں قید کی سزا بھگتنا پڑی تھی۔ اس لیے یہ قلعہ استبداد کی علامت تھا ۔

نیشنل اسمبلی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ فرانس پر غیر ملکی قرضے کا بوجھ تھا۔ اس لی جب قوم سے اپیل کی گئی کہ وہ قرضہ اُتارنے میں مدد کریں تو لوگوں نے اس میں بھر پور حصہ لیا اور عام لوگوں نے چندہ جمع کر کے نیشنل اسمبلی کو دیا تا کہ قرضے کو اُتارا جا سکے اور فرانس کی عزت بحال ہو۔ مگر اس مہم میں اُمراء نے جن کے پاس دولت کی کمی نہ تھی حصہ نہ لیا۔ اس لیے عوام میں ان کے لیے حقارت کے جذبات پیدا ہوئے ۔

اس اعلامیے کے اہم نکات یہ تھے: کہ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے ، امراء کے پرانے خطابات کو ختم کر کے ایک دوسرے کو شہری کہہ کر مخاطب کیا جائے۔ فرانس کے شہریوں کو سیاست میں آزادی ہونی چاہیے تا کہ وہ اپنی پسند کے نمائندوں کا انتخاب کر سکیں ۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ اظہار رائے کی آزادی ہو، صحافت پر کوئی پابندی نہ ہو، بغیر مقدمے میں کسی کو سزانہ دی جائے ۔ مقدمے میں مدعی کو اپنے حق کے لیے وکیل کو عدالت میں پیش کرنے کا حق ہو۔

فرانس یورپ کا پہلا ملک تھا جس نے عوام کو بنیادی حقوق دے کر معاشرے کو اعلیٰ و ادنی سے بدل کر سب کو مساوی مقام دیا۔ مذہبی انتہا پسندی کی جگہ رواداری کولوگوں میں مقبول کیا، نفرت اور تعصبات کو ختم کر کے فسادات کو روکا۔ قانونی حقوق نے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کیا۔ جب چرچ کا ادارہ کمزور ہوا تو یاستی اداروں کے اختیارات بڑھے

فرانس ہی میں پہلی مرتبہ دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی اصطلاحات کا استعمال ہوا۔ اسمبلی میں جو اراکین دائیں جانب بیٹھتے تھے وہ بادشاہ کے حامی تھے اور پرانے نظام کو واپس لانا چاہتے تھے، بائیں بازو کے اراکین انقلابی تھے اور بادشاہت کے خاتمے اور پرانے نظام کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ یہ اراکین جیکو دن کے نام سے مشہور ہوئے ۔ یہ اپنا اجلاس ایک چرچ میں کرتے تھے جس کا نام جیکو دن کلب تھا۔ اس کلب میں اسمبلی کے اراکین کے علاوہ دوسرے لوگ بھی شامل تھے جن میں صحافی، دانشور، سیاسی کارکن، کاریگر اور دوکاندار وغیرہ شامل تھے ۔

اسمبلی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ فرانس کا صوبہ اپنی علیحدہ تاریخ رکھتا تھا اس کی سماجی روایات جدا تھیں۔ اس کے قوانین ورواج مختلف تھے۔ اس کا ٹیکسوں کا نظام الگ تھا، اس کی انتظامیہ اور عہدیدار علیحدہ فرائض رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ صوبوں کی زبانیں بھی مختلف تھیں۔ اس لیے ان رکاوٹوں کو دور کر کے اور فرانس کو بحیثیت قوم متحد کرنا بڑا مشکل تھا، کیونکہ صوبوں کے لوگ اپنے کلچر اور روایات سے انحراف کرنا نہیں چاہتے بڑا تھا، تھے۔ انحراف کا مطلب تھا کہ اپنی آزادی ختم کر کے خود کو مرکز کے حوالے کر دیں۔ اس کے لیے ذہنی تبدیلی کی ضرورت تھی۔

لیکن 1789ء کے بعد جب فرانس میں انقلابی تحریکیں شروع ہوئیں، تو چرچ نے بھی اپنے رویے کو بدلا ۔ اُسے احساس ہو گیا تھا کہ انقلاب کے جذبات کو ٹھنڈا نہیں کیا جاسکتا تھا لہذا انقلاب کا ساتھ دینا چاہیے تا کہ اس کی مراعات باقی رہیں۔ لہذا ۔ 14 جولائی 1789ء بیٹل کی سالگرہ پر بڑا نذہبی تہوار منایا گیا۔ یہ تہوار فرانس کے دوسرے شہروں میں بھی منعقد کیا گیا

عورتوں نے اسمبلی کے کچھ کر داراکین کی اس دلیل کو رد کر دیا کہ کہ اگر عورتیں آزاد ہوئیں تو معاشرہ بکھر جائے گا۔ اس کے جواب میں عورتوں کا کہنا تھا کہ دراصل ان کی آزادی مردوں کی آزادی ہے۔ وہ سیاسی اور سماجی امور میں حصہ لے کر مردوں کی مشکلات کو کم کریں گی ۔

انقلاب کے دوران Louis xvi کی پوزیشن بڑی نازک تھی۔ ورسائی سے پیرس آنے کے بعد وہ لوگوں کے درمیان تھا۔ ایک جانب وہ بادشاہ کے اختیارات کو قائم رکھنا چاہتا تھا مگر دوسری جانب انقلابیوں کے دباؤ کی وجہ سے اُسے ان کے مطالبات ماننے پڑتے تھے۔ اس نے مجبور اسول آئین پر دستخط کیے جس کے تحت ریاست نے چرچ کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

(انگلش فلسفی جون لوک John) (1704-Lock کا کہنا تھا کہ پیدائش کے وقت انسانی ذہن سلیٹ کی طرح صاف و شفاف ہوتا ہے تعلیم اور ماحول اس کے ذہن کو بناتا ہے۔ اس بنیاد پر انقلابیوں کا خیال تھا، کہ روشن خیالی کی تعلیم فرانس کے معاشرے میں آزادی مساوات اور اخوت کو پیدا کرے گی۔ لہذا پرانے نظام کو ختم کر کے عقل کی بنیاد پر لوگوں کی تربیت کرنی چاہئے ،

اکثر انقلاب ایک ایسے دوراہے پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ ایک جگہ ٹھہرتا نہیں بلکہ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اس مرحلے پر انقلابیوں کو ہر جانب سازش اور مخالفین نظر آتے ہیں۔ ان کا خاتمہ کرنے لیے تشدد کو استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہی تشد و انقلاب کو کمزور بھی کرتا ہے۔ کیونکہ اس میں وہ افراد مارے جاتے ہیں جن کا انقلاب میں اہم کردار ہوتا ہے۔ تشدد کے نتیجے میں امرانہ حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے اور سیاست دانوں میں ڈر اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ انقلاب سیاسی استحکام کی جگہ انتشار کو پیدا کرتا ہے جو معاشرے کو مزید سیاسی اور معاشی بحرانوں میں مبتلا کر کے انقلاب کے مفہوم کو بدل دیتا ہے۔

تاریخ میں انقلاب بھی بھی معاشرے کی مکمل منظور سے نہیں آتا۔ اس میں معاشرہ مختلف نظریات کی بنیاد پرتقسیم ہو جاتا ہے۔ سیاسی تسلط کے لیے آپس میں تصادم ہوتا ہے۔ خونریزی بھی ہوتی ہے۔ اور فیصلہ اس کے حق میں ہوتا ہے جو طاقتور ہوں۔

انقلاب کیوں دہشت گردی کو اختیار کرتا ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دستوری اور قانونی ذرائع سے انقلاب کا تحفظ نہ ہو سکے تو پھر ایسی پالیسی اختیار کی جاتی ہے کہ جس میں مخالفوں کو اپنا مقدمہ لڑنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے

ان افراد میں رو بز پیر کا ساتھی اور پرانا انقلابی لیڈر (Danton) تھا، اس کا غیر ملکی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے، اور سزائے موت دی گئی، جب اُسے گوئے ٹن کی طرف لے جایا جارہا تھا تو اُس نے کہا تھا کہ کچھ عرصے بعد روبز پیر کو بھی یہاں آنا پڑے گا گوئے ٹن پر اپنا سر کٹنے سے پہلے اُس نے اعلان کیا تھا کہ یہ ایک انقلابی کا سر ہو گا جسے پوری طرح سے لوگوں کو دکھانا چاہیے۔

فرانس کے سیاسی بحران سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے 1799ء میں وہ فوج کی مدد سے اسمبلی پر قبضہ کر کے خود کو اقتدار میں لے آیا۔ ابتدا میں اس نے خود کو (First Consul ) کہا اور پھر 1804ء میں شہنشاہ ہونے کا اعلان کر دیا ۔ اگر چہ شہنشاہیت نے انقلاب کا خاتمہ تو کیا مگر اس کے سیاسی اور سماجی اثرات باقی رہے جو فرانس کی تاریخ میں بار بارا بھر کر انقلابات لاتے رہے۔

‏E.Burke قدیم اداروں کی اہمیت کو سمجھتا تھا، کیونکہ قدیم ادارے صدیوں کے انسانی تجربات کی روشنی میں تشکیل پاتے ہیں۔ اس لیے ایک طریقہ کار یہ ہے کہ ان اداروں کی فرسودگی کو ختم کرنے کے لیے اصلاحات کی جائیں جیسا کہ انگلستان کی سیاست میں تھا۔ جب انقلاب پرانے نظام کو منہدم کر دیتا ہے تو معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔

کمیٹی آف پبلک سیفٹی اور ٹربیونل کے اراکین کو خطرہ محسوس ہوا کہ رو بز پڑر ایک ایک کرکے انھیں بھی گلوٹن کے حوالے کر دے گا۔ اس لیے اندر ہی اندر سازش ہوئی ۔ ایک دن جب رو بز پیر تقریر کرنے کھڑا ہوا، تو اراکین نے اُس پر حملہ کر دیا۔ اُسے زخمی کیا اور گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلایا۔ ٹریبونل (Tribunal) نے اُسے بھی سزائے موت دی۔

۔آزادی کے بعد ایشیا اور افریقہ کے ملکوں نے اس تاریخ سے سیکھنے کی کوشش کی ہے مگر ہر ملک کا انقلاب اپنے ماحول اور حالات کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اس کو نقل نہیں کیا جا سکتا لیکن اس سے عوامی جدو جہد کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے کہ جب تک وہ ذہنی طور پر تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہوں گے سوسائٹی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔